پاکستان میں حکام نے قبائلی علاقوں جنوبی وزیرستان اور باجوڑ میں جاری خونریز جھڑپوں میں کم از کم 14 اہلکاروں اور درجنوں طالبان جنگجوؤں کی ہلاکت کی تصدیق ہے۔
فوجی ذرائع نے بتایا ہے کہ جنوبی وزیرستان کے بدر نامی علاقے میں عسکریت پسندوں کے خلاف گزشتہ دو روز سے جاری بڑے آپریشن میں اب تک اُن کے سات مشتبہ ٹھکانے تباہ اور 18 ’’دہشت گرد‘‘ ہلاک ہو چکے ہیں۔ لڑائی میں شدت پسندوں کے کم از کم 21 ساتھی زخمی بھی ہوئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق ان کارروائیوں کے دوران منگل کو رات دیر گئے مشتبہ طالبان جنگجوؤں نے سرنگ بابا زیارت نامی علاقے کے قریب فوجی چوکی پر اچانک حملہ کر دیا اور لڑائی میں کم از کم آٹھ فوجی کام آئے جب کہ چھ دیگر زخمی ہو گئے۔
جنوبی وزیرستان تحریک طالبان اور اُن کے حامی جنگجوؤں کا ایک مضبوط گڑھ تھا جن کے خاتمے کے لیے سن 2009ء میں پاکستان فوج نے ’راہِ نجات‘ نامی بڑا آپریشن شروع کیا تھا۔
عسکری حکام کے بقول اس قبائلی خطے کے زیادہ تر حصے پر حکومت کی عمل داری بحال کی جا چکی ہے تاہم اب بھی بعض مقامات پر عسکریت پسندوں کا غلبہ ہے جو وقتاً فوقتاً سرکاری افواج پر حملے کرتے ہیں۔
تحریک طالبان کے ایک ترجمان نے سرنگ بابا زیارت کے قریب فوجی چوکی پر حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ سرکاری دعوؤں کے برعکس سکیورٹی فورسز کو بہت زیادہ جانی نقصان ہوا ہے۔
تاہم جنوبی وزیرستان میں ذرائع ابلاغ کو رسائی حاصل نہیں اس لیے لڑائی کے بارے میں فریقین کے دعوؤں کی آزاد ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں۔
باور کیا جاتا ہے کہ سن 2009ء کے فوجی آپریشن سے فرار ہونے والے طالبان جنگجوؤں نے شمالی وزیرستان میں پناہ گاہیں قائم کر لی ہیں جہاں سے پاکستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کی کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔
اُدھر باجوڑ ایجنسی کے بٹوار نامی سرحدی علاقے میں سکیورٹی فورسز اور طالبان جنگجوؤں کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ پانچویں روز بھی جاری رہا اور عسکری ذرائع کے بقول بدھ کو ہونے والی لڑائی میں کم از کم 11 عسکریت پسندوں کو ہلاک اور آٹھ کو گرفتار کر لیا گیا۔ حکام نے تصدیق کی کہ چھ سکیورٹی اہلکار بھی لڑائی میں کام آئے جب کہ متعدد تاحال لاپتا ہیں۔
عسکری ذرائع نے بتایا کہ بٹوار کا علاقہ افغان سرحد سے چند کلومیٹر دور ہے مگر اس خطے میں افغانستان کی جانب سے عسکریت پسندوں کی دراندازی کو روکنا بہت مشکل ہے۔
ان ذرائع نے الزام لگایا کہ باجوڑ سے متصل افغان صوبہ کنڑ کے گورنر کی حمایت سے تحریک طالبان کے مفرور جنگجو سرحد پار پاکستانی اہداف پر حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں، جو باجوڑ میں حالیہ لڑائی کی طوالت کی بڑی وجہ ہے۔
مبینہ طور پر سرحد کی دوسری جانب نیٹو کی زیرِ قیادت اتحادی افواج کی موجودگی کے باعث بلند پہاڑی مقامات پر قائم طالبان کی مشتبہ کمین گاہوں پرفضائی بمباری بھی نہیں کی جاسکتی۔
عسکری حکام کا کہنا ہے کہ اتحادی فوجیں بھی بظاہر جنگجوؤں کی سرحد پار کارروائیوں کو روکنے کے لیے موثر اقدامات نہیں کر رہی ہیں، اور یہ معاملہ افغانستان میں تعینات نیٹو افواج کے امریکی کمانڈر جنرل جان ایلن کے ساتھ اٹھایا جائے گا جو فوجی قیادت کے ساتھ بات چیت کے لیے جمعرات کو پاکستان پہنچ رہے ہیں۔
فوجی ذرائع نے بتایا ہے کہ جنوبی وزیرستان کے بدر نامی علاقے میں عسکریت پسندوں کے خلاف گزشتہ دو روز سے جاری بڑے آپریشن میں اب تک اُن کے سات مشتبہ ٹھکانے تباہ اور 18 ’’دہشت گرد‘‘ ہلاک ہو چکے ہیں۔ لڑائی میں شدت پسندوں کے کم از کم 21 ساتھی زخمی بھی ہوئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق ان کارروائیوں کے دوران منگل کو رات دیر گئے مشتبہ طالبان جنگجوؤں نے سرنگ بابا زیارت نامی علاقے کے قریب فوجی چوکی پر اچانک حملہ کر دیا اور لڑائی میں کم از کم آٹھ فوجی کام آئے جب کہ چھ دیگر زخمی ہو گئے۔
جنوبی وزیرستان تحریک طالبان اور اُن کے حامی جنگجوؤں کا ایک مضبوط گڑھ تھا جن کے خاتمے کے لیے سن 2009ء میں پاکستان فوج نے ’راہِ نجات‘ نامی بڑا آپریشن شروع کیا تھا۔
عسکری حکام کے بقول اس قبائلی خطے کے زیادہ تر حصے پر حکومت کی عمل داری بحال کی جا چکی ہے تاہم اب بھی بعض مقامات پر عسکریت پسندوں کا غلبہ ہے جو وقتاً فوقتاً سرکاری افواج پر حملے کرتے ہیں۔
تحریک طالبان کے ایک ترجمان نے سرنگ بابا زیارت کے قریب فوجی چوکی پر حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ سرکاری دعوؤں کے برعکس سکیورٹی فورسز کو بہت زیادہ جانی نقصان ہوا ہے۔
تاہم جنوبی وزیرستان میں ذرائع ابلاغ کو رسائی حاصل نہیں اس لیے لڑائی کے بارے میں فریقین کے دعوؤں کی آزاد ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں۔
باور کیا جاتا ہے کہ سن 2009ء کے فوجی آپریشن سے فرار ہونے والے طالبان جنگجوؤں نے شمالی وزیرستان میں پناہ گاہیں قائم کر لی ہیں جہاں سے پاکستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کی کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔
اُدھر باجوڑ ایجنسی کے بٹوار نامی سرحدی علاقے میں سکیورٹی فورسز اور طالبان جنگجوؤں کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ پانچویں روز بھی جاری رہا اور عسکری ذرائع کے بقول بدھ کو ہونے والی لڑائی میں کم از کم 11 عسکریت پسندوں کو ہلاک اور آٹھ کو گرفتار کر لیا گیا۔ حکام نے تصدیق کی کہ چھ سکیورٹی اہلکار بھی لڑائی میں کام آئے جب کہ متعدد تاحال لاپتا ہیں۔
عسکری ذرائع نے بتایا کہ بٹوار کا علاقہ افغان سرحد سے چند کلومیٹر دور ہے مگر اس خطے میں افغانستان کی جانب سے عسکریت پسندوں کی دراندازی کو روکنا بہت مشکل ہے۔
ان ذرائع نے الزام لگایا کہ باجوڑ سے متصل افغان صوبہ کنڑ کے گورنر کی حمایت سے تحریک طالبان کے مفرور جنگجو سرحد پار پاکستانی اہداف پر حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں، جو باجوڑ میں حالیہ لڑائی کی طوالت کی بڑی وجہ ہے۔
مبینہ طور پر سرحد کی دوسری جانب نیٹو کی زیرِ قیادت اتحادی افواج کی موجودگی کے باعث بلند پہاڑی مقامات پر قائم طالبان کی مشتبہ کمین گاہوں پرفضائی بمباری بھی نہیں کی جاسکتی۔
عسکری حکام کا کہنا ہے کہ اتحادی فوجیں بھی بظاہر جنگجوؤں کی سرحد پار کارروائیوں کو روکنے کے لیے موثر اقدامات نہیں کر رہی ہیں، اور یہ معاملہ افغانستان میں تعینات نیٹو افواج کے امریکی کمانڈر جنرل جان ایلن کے ساتھ اٹھایا جائے گا جو فوجی قیادت کے ساتھ بات چیت کے لیے جمعرات کو پاکستان پہنچ رہے ہیں۔