کراچی میں آج کل پانچویں موسم کی رونقیں پورے عروج پر ہیں۔ جی ہاں! پانچواں موسم ! یہاں گرمی ، سردی ، برسات اور بہار کے بعد پانچواں موسم 'شادیوں کا موسم ' ہوتا ہے۔ رمضان کے پورے ایک مہینے لوگ شادیوں سے اجتناب برتتے ہیں اور پھر شوال میں جانے کیوں ہر خاندان میں ، دو، دو اور کہیں کہیں تین تین شادیاں ہوتی ہیں۔
سارے سال میں سب سے زیادہ شادیاں اسی ماہ ہوتی ہیں، کیوں ہوتی ہیں اور یہ رواج کیسے پڑا یہ پہلو تو تفصیل طلب ہیں مگر ان دنوں شادی کرنا ۔۔۔اور وہ بھی کراچی میں دھوم دھام سے شادی کرنا ایسا ہی ہے جیسے قارون کے خزانے کا منہ کھولنا۔جیسے جیسے زمانے نے کروٹ بدلی شادی کے رسم و رواج بھی بدل گئے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج شادی کرنے کے نام سے خوف آنے لگا ہے۔
یامین جعفری ، معاشرے کے جہاندیدہ شخص ہیں۔ وہ پچھلے زمانے کی شادیوں کا حال بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:" انیس سو ستر کے آس پاس کی بات ہے، سیدھی سادھی سی شادی، ون ڈش کھانے، ہلکا پھلکا سا ماحول ، بھاری بھاری قمقموں کی جگہ کاغذ کی جھنڈیاں ، جہیز وبری کے نام پر چند جوڑی سادہ کپڑے،وولہے کے لئے گھوڑا اوربہت ہوا تو بینڈ باجے کا رواج تھا ۔بلیک اینڈ وائٹ فوٹوگرافی بھی سستی پڑتی تھی۔ دن کی شادی ہوتی تھی بجلی کا خرچ بھی بچتا تھا۔ بارات کے لئے محلے کے چند گھرانے یا کھیل کے میدان و پارکوں سے کام چل جاتا تھا ۔مگر80ء کا عشرہ آتے آتے یہ سب کچھ بدلنے لگا اور بدلتے بدلتے آج یہ عالم ہے کہ شادی معاشرے کا سب سے مہنگا" نسخہ" ہوگئی ہے"
شادی کے روز بہ روز بڑھتے ہوئے اخراجات کے بارے میں ایک بزرگ صدیقہ خاتون کا تجزیہ یہ ہے کہ : آج کی شادی میں سادگی کم اور فضول رسمیں زیادہ اہمیت اختیار کرگئی ہیں اس لئے شادیوں کے لئے قرضوں کے بوجھ بڑتے جارہے ہیں اور متوسط طبقہ اس کے بوجھ تلے پستہ چلا جارہا ہے۔اصل شادی نکاح اور ولیمے تک محدود ہے مگر منگنی، مایوں، مہندی، رخصتی اور چوتھی کے خوامخواہ اضافے نے شادی کوعذاب بنادیا ہے۔آج شادی کے لئے کم از کم بیس سے پچیس لاکھ روپے درکار ہوتے ہیں۔
شادی کے بے انتہا اخراجات میں بڑھتی ہوئی مہنگائی نے بھی جلی پر تیل کا کام کیا ہے۔ مہنگائی کی بدولت معاشرہ مختلف طبقات میں بٹ گیاہے ۔ کم آمدنی والا طبقہ، متوسط یا محدود آمدنی والا طبقہ، ایلیٹ کلاس، رولنگ کلاس یعنی حکمراں طبقہ اور سفید پوش طبقہ۔۔۔سچ پوچھئے تو متوسط طبقے میں شادی کی خوشیاں مہنگائی کا سیاہ ناگ نگل گیا ہے۔ برات کا کھانا ہو یا ولیمہ ۔۔۔بات سینکڑوں سے ہزاروں میں آگئی ہے۔
شادی بیاہ کے لئے کھانے کا انتظام کرنے والے ایک پکوان سینٹر کے مالک ذیشان نبی کی رائے میں : پہلے شادی کا کھانا زیادہ سے زیادہ پانچ یاسات ہزار میں پک جاتا تھا ۔ سادگی کا دور تھا، زردہ بریانی یا پھر قورمہ روٹی اور کھیر میں بات بن جاتی تھی۔ اب اول تو اس طرح کے کھانے کوئی پسند نہیں کرتا اور جو کھانے اب پسند کئے جاتے ہیں وہ ایک وقت میں ستر اسی ہزار سے کم میں نہیں پکتے۔پہلے بھینس اور گائے کے پکوان بنتے تھے اب مرغی اور بکرے کا سالن معمول کی بات ہے۔ پھر مچھلی، مرغی کے ساتھ ربڑی، اسٹریم روسٹ، ہنٹر بیف ، لب شیریں، گاجر کا حلوہ اور نا جانے کتنے کتنے قسم کے کھانے پکتے ہیں۔ کولڈ ڈرنک ،شربت اور آخر میں ون ڈش کی پابندی کچھ عرصہ رہی مگر اب کیسی پابندی۔۔۔ایک شادی میں مرے سے مرے چار کھانے لازمی ہیں۔اس صورت میں طبقاتی کشمش تو بڑھے گی ہی۔۔۔!
شادی کی خریداری دوسرا بڑا مسئلہ ہے۔دولہا ، دلہن کے کپڑے تو ایک طرف شادی میں شرکت کرنے والی خواتین شادی کے ہر دن کے لئے نئے کپڑے بناتی ہیں۔ کوئی بھی جوڑا ہزار دس ہزار سے کم نہیں ہوتا۔ پھر میچنگ کی جیولری، پرس ، چوڑیاں اور میک اپ پر ہونے والے اخراجات کی بھی کوئی حد مقرر نہیں۔
کراچی کے ہی ایک تاجر وجاہت کریم کا کہنا ہے " شاپنگ اور سامان جہیز کی منہ زور قیمتوں نے ادھ مرا کردیا ہے۔ فرنیچر اور برات و رخصتی کے موقع پر آمد ورفت کے کرائے بھی آسمان سے باتیں کررہے ہیں"
شادی ہالوں اور ہوٹلوں میں شادی کرنے کا رجحان سن 1980ء کے قریب رواج پایا ۔ شروع شروع میں ہالز گھر میں ہونے والی شادی کے مقابلے میں سستے پڑتے تھے ، پھر گھر والوں کو انتظامات کی کوئی ٹینشن بھی نہیں ہوا کرتی تھی اس لئے آہستہ آہستہ ہالز اور ہوٹلوں میں شادی کرنا لوگوں کی عادت بن گیا تاہم اکتوبر دوہزا ر آٹھ اور سن دوہزار دس میں کئے گئے سروے کے مطابق ان ہالز کی بکنگ پر خرچ ہونے والی قیمتوں میں زمین آسمان کا فرق ہوگیا ہے۔پہلے پہل بکنگ دس ہزار روپے میں ہوتی تھی، اکتوبر2008ء میں بکنگ پر 70 سے اسی ہزار روپے صرف ہوئے جبکہ دوہزار آٹھ میں ہالز میں ایک دن کی تقریب پر ڈیڑھ سے دو لاکھ روپے خرچ ہورہے ہیں۔
ایک پرانا محاورہ ہے کہ بے گانے کی شادی میں عبداللہ دیوانہ۔۔۔شادی خاندان مین کسی کی بھی ہو سب سے زیادہ خوش نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہوتی ہیں۔ نوجوانوں کا کہنا ہے کہ شادی عید بقرعید سے بھی زیادہ خوشی کا باعث ہوتی ہے۔ دوسری جانب یہ نوجوان شادی سے جڑی تمام رسم و رواج کو اہم مانتے ہیں۔ مریم اقبال اور دانش کبیر نوجوان نسل سے ہی ہیں۔ ان کاخیال ہے : پاکستان اور بھارت کا کلچر کچھ اس طرح کا ہے کہ شادی بیاہ کی ڈھیر ساری روایات جب تک نہ ہوں لوگوں کو شادی کامزہ نہیں آتا۔شادی ہی ایک ایسا موقع ہوتا ہے جب تمام کزنز اکھٹا ہوکر ہلا گلہ کرتے ہیں۔ ساتھ ساتھ گانا گانے ڈھول بجانے ، مہندی لگانے اور ایک دوسرے کے ساتھ کھل کر قہقہے لگانے کا اور کوئی موقع کہاں ملتا ہے۔ اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ شادی جیسے اہم موقع پر رسم و رواج کو خوشی کی خاطر زندہ کرلیا جائے تو اس میں کوئی برائی نہیں"
اس کے برعکس پرانی پیٹری یعنی نسل کہتی ہے کہ بعض رسموں کو شادی کا لازمی جز تسلیم کرلیا گیا ہے۔ اس سے شادی پر ہونے والا خرچ ڈبل بلکہ ٹرپل ہوگیا ہے۔ان رسموں کے لئے ایک سال پہلے ہی تیاری شروع ہوجاتیہے۔ دونوں جانب والے بات پکی کرنے کے بعد سال بھر کے دوران آنے والے تہواروں میں ایک دوسرے کے گھرانوں میں جانا آنا اور رسموں کی ادائیگی شروع کردیتے ہیں ۔ پھر کسی بھی ایک طرف سے اعتراض ہو تو یہ کہا کر بات ختم کردی جاتی ہے کہ یہ ہمارے یہاں کی رسم ہے جو اداتو کرنا ہی پڑے گی۔ بچوں کی بھی اسی میں خوشی ہے۔ اس رسوم پر بھاری بھاری رقمیں خرچ کی جاتی ہیں۔ پھر لڑکے اور لڑکی کے لئے تہواری بھی لازمی قرار دی جاتی ہے۔ حالانکہ ان سب رسموں کا شادی سے کوئی تعلق نہیں۔
لوگوں کے اس رجحان پر دانستہ کوئی قید نہیں لگا سکتا اور تمام پابندیوں کے باوجود فضول رسمیں اب تک ختم نہیں ہوسکی ہیں۔ تاہم مہنگائی کا جادو چلنے لگا ہے۔ پچھلے کچھ عرصے میں سونے کی قیمتیں بڑھتے بڑھتے کہیں کی کہیں جاپہنچی ہیں۔ پہلے شادی کے موسم میں سب سے زیادہ خریداری جیولری کی ہی ہوتی تھی مگر اب اس کے برعکس ہورہا ہے۔ اب دلہنیں مصنوعی اور کپڑوں سے ملتی جیولری سے کام چلا رہی ہیں۔
ادھر دلہن کے کپڑوں کی قیمتیں چار لاکھ سے پانچ لاکھ ہوگئی ہیں۔ اتنی قیمت سن کر متوسط طبقے کے منہ کھلے کے کھلے رہ جاتے ہیں۔ پہلے کبھی شادی بیاہ کے کپڑوں کو کرائے پر لینے کی بات ہنسی مذاق میں کہی جاتی تھی مگر اب ایلیٹ کلاس میں بھی اس کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ اب اس طبقے کی سوچ یہ ہوگئی ہے کہ محض ایک دن کے لئے کپڑوں کی خریداری پر اتنا خرچ بے معنی اور فضول ہے۔ گویا مہنگائی کی بدولت رسومات پر قید لگنے لگی ہے۔
مہنگائی کے بعد ایک اور چیز نے شادی کی تقریب پر اندھا دھند خرچ کو بریک لگائے ہیں اور وہ ہے امن وامان کی خراب صورتحال اور خود کش بم دھماکوں کا خوف!اس خوف کی بدولت لوگوں کے بے جا شاپنگ رجحان میں کمی واقع ہوئی ہے۔
شادی کا ایک فریضہ کھانا ہے۔ مہنگائی کے سبب اس میں بھی کمی آتی جارہی ہے۔ فی فرد بڑھتے ہوئے اخراجات کے سبب مہمانوں کو محدود کرنے کا رجحان بھی زور پکڑ رہا ہے۔ ہالز ایسے دیکھے جارہے ہیں جہاں خرچ کم سے کم ہو۔
عام لوگوں کا خیال ہے کہ اب تقریبات کا انعقاد ہرکولیس کی طاقت و حوصلے کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ جہیز کے مطالبے اور تقریبات میں دولت کے دکھاوے کے بڑھتے ہوئے رجحان نے لوگوں کو شادی جیسے فرض کی ادائیگی پر بھی سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔