اسلام آباد —
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) کا کہنا ہے کہ پاکستان میں غذا کی رسد کا معاملہ دن بدن پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے اور اعداد و شمار کے مطابق ملک کی تقریباً 50 فیصد آبادی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے۔
ادارے کے ترجمان امجد جمال نے بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ملک بھر میں 40 ایسے اضلاع ہے جہاں یہ صورتحال انتہائی سنگین ہے۔
’’اس کا مطلب ہے کہ ان لوگوں کو ایک دن میں اتنا کھانا نہیں مل رہا جس میں اُن کو ضروری کلوریز مل سکیں۔ ایک شخص صحت مندانہ زندگی گزارنے کے لیے روزانہ 2700 کلوریز کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے جن افراد کو اس سے کم غذا ملے انہیں غذائی عدم تحفظ کے شکار لوگوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔‘‘
پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور حالیہ برسوں میں یہاں گندم اور چاول کی اضافی پیداوار دیکھنے میں آئی ہے مگر ڈبلیو ایف پی کے عہدیدار کا کہنا ہے کہ ان سالوں میں مہنگائی میں بتدریج اضافے سے اشیائے خور و نوش لوگوں کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہے۔
’’جس تیزی سے خور و نوش کی چیزوں کی قمیت بڑھی ہیں اس اعتبار سے لوگوں کی تنخواہیں یا اجرت نہیں بڑھی۔ تو یہ فرق بہت بڑا ہے۔ پھر اس کے ساتھ ساتھ خواراک تک رسائی کی وجوہات میں قدرتی آفات اور اندون ملک نقل مکانی بھی شامل ہیں۔‘‘
پاکستان کو 2010ء اور 2011ء میں شدید سیلابوں کا سامنا کرنا پڑا جس نے لاکھوں کی تعداد لوگوں کو اپنے گھروں سے بے دخل ہونے پر مجبور کیا۔ علاوہ ازیں قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائیوں سے بچ کر ایک بڑی آبادی نے ملک کے مختلف محفوظ علاقوں میں پناہ لے رکھی ہے۔
رواں ماہ جاری ہونے والی پاکستان کی اقتصادی جائزہ رپورٹ کے مطابق مالی سال 13-2012 میں ملک میں افراط زر کی شرح تقریباً آٹھ فیصد رہی جب کہ حالیہ بجٹ میں آئندہ مالی سال میں اس میں اضافے کا عندیہ دیا گیا ہے۔
امجد جمال کا کہنا تھا کہ ملک میں غذائی عدم تحفظ کی صورتحال پر قابو پانے کے لیے موجودہ حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے۔
’’ زیرو ہنگر پروگرام کے تحت حکومت نے ہمیں اضافی گندم فراہم کرنی ہے جس سے آٹا اور بسکٹ بنا کر ہم نے کام کے عوض ان غذائی عدم تحفظ کے شکار افراد کو دینا ہیں اور اسی طرح یہ اسکولوں میں بھی مفت تقسیم کرنا ہے۔‘‘
تاہم ڈبلیو ایف پی کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ایک سال گزرنے کے باوجود وزارت غذائی تحفظ اور تحقیقات زیرو ہنگر پروگرام پر عمل در آمد شروع نہیں کر پائی۔
11 مئی کے انتخابات کے بعد بننے والی میاں نواز شریف کی حکومت کے عہدیدار اس بات کا اعادہ کر چکے ہیں کہ توانائی اور دہشت گردی سے متاثرہ معیشت کی بحالی کے لیے موثر اقدامات کرتے ہوئے عوام کے درینہ مسائل کو حل کیا جائے گا۔
ادارے کے ترجمان امجد جمال نے بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ملک بھر میں 40 ایسے اضلاع ہے جہاں یہ صورتحال انتہائی سنگین ہے۔
’’اس کا مطلب ہے کہ ان لوگوں کو ایک دن میں اتنا کھانا نہیں مل رہا جس میں اُن کو ضروری کلوریز مل سکیں۔ ایک شخص صحت مندانہ زندگی گزارنے کے لیے روزانہ 2700 کلوریز کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے جن افراد کو اس سے کم غذا ملے انہیں غذائی عدم تحفظ کے شکار لوگوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔‘‘
پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور حالیہ برسوں میں یہاں گندم اور چاول کی اضافی پیداوار دیکھنے میں آئی ہے مگر ڈبلیو ایف پی کے عہدیدار کا کہنا ہے کہ ان سالوں میں مہنگائی میں بتدریج اضافے سے اشیائے خور و نوش لوگوں کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہے۔
’’جس تیزی سے خور و نوش کی چیزوں کی قمیت بڑھی ہیں اس اعتبار سے لوگوں کی تنخواہیں یا اجرت نہیں بڑھی۔ تو یہ فرق بہت بڑا ہے۔ پھر اس کے ساتھ ساتھ خواراک تک رسائی کی وجوہات میں قدرتی آفات اور اندون ملک نقل مکانی بھی شامل ہیں۔‘‘
پاکستان کو 2010ء اور 2011ء میں شدید سیلابوں کا سامنا کرنا پڑا جس نے لاکھوں کی تعداد لوگوں کو اپنے گھروں سے بے دخل ہونے پر مجبور کیا۔ علاوہ ازیں قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائیوں سے بچ کر ایک بڑی آبادی نے ملک کے مختلف محفوظ علاقوں میں پناہ لے رکھی ہے۔
رواں ماہ جاری ہونے والی پاکستان کی اقتصادی جائزہ رپورٹ کے مطابق مالی سال 13-2012 میں ملک میں افراط زر کی شرح تقریباً آٹھ فیصد رہی جب کہ حالیہ بجٹ میں آئندہ مالی سال میں اس میں اضافے کا عندیہ دیا گیا ہے۔
امجد جمال کا کہنا تھا کہ ملک میں غذائی عدم تحفظ کی صورتحال پر قابو پانے کے لیے موجودہ حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے۔
’’ زیرو ہنگر پروگرام کے تحت حکومت نے ہمیں اضافی گندم فراہم کرنی ہے جس سے آٹا اور بسکٹ بنا کر ہم نے کام کے عوض ان غذائی عدم تحفظ کے شکار افراد کو دینا ہیں اور اسی طرح یہ اسکولوں میں بھی مفت تقسیم کرنا ہے۔‘‘
تاہم ڈبلیو ایف پی کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ایک سال گزرنے کے باوجود وزارت غذائی تحفظ اور تحقیقات زیرو ہنگر پروگرام پر عمل در آمد شروع نہیں کر پائی۔
11 مئی کے انتخابات کے بعد بننے والی میاں نواز شریف کی حکومت کے عہدیدار اس بات کا اعادہ کر چکے ہیں کہ توانائی اور دہشت گردی سے متاثرہ معیشت کی بحالی کے لیے موثر اقدامات کرتے ہوئے عوام کے درینہ مسائل کو حل کیا جائے گا۔