اسلام آباد —
اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر مولانا طاہر اشرفی نے کونسل کے سربراہ سے مطالبہ کیا ہے کہ جنسی تشدد کے واقعات میں جنیاتی تجزیہ یعنی ڈی این اے سے متعلق کونسل کی متنازع سفارشات کو روکا جائے۔
اسلامی نظریاتی کونسل نے حال ہی میں اپنی تجویز میں کہا ہے کہ جنسی تشدد کے واقعات میں ڈی این اے معائنے کو بنیادی شہادت کے طور پر قبول نہیں کیا جاسکتا۔
اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا طاہراشرفی کا کہنا تھا کہ کونسل نے اس معاملے میں جلد بازی سے کام لیا اور کسی بھی صورت میں عصمت دری کے واقعات میں ڈی این اے معائنے کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ ایک خط کے ذریعے کونسل کے چیئرمین اور جمیعت علماء اسلام کے قانون ساز مولانا محمد خان شیرانی سے کہا ہے کہ وہ اس بارے مشاورتی عمل میں طبی ماہرین اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو شامل کریں۔
’’سعودی عرب کے ایک ادارے نے رائے دی ہے کہ زنا بالجبر میں ڈی این اے معائنہ قابل قبول نہیں مگر اس کے درجے دیکھنے ہوں گے۔ اس کے لئے تمام چیزوں کو مدنظر رکھنا ہوگا کہ کس جگہ یہ قابل قبول ہے اور کہاں نہیں۔ کسی چیز سے انکار کے لئے بھی دلیل چاہیے۔‘‘
مولانا اشرفی کی جانب سے خط ایک ایسے وقت میں آیا جب حقوق انسانی کی تنظیموں کی جانب سے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارش پر سخت تنقید کی گئی اور ملک کے چند موقر اخباروں نے اپنے اداریوں میں اس کی نظر ثانی پر زور دیا گیا۔
ہیومن رائیٹس کمیشن آف پاکستان نے کونسل کی تجویز پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے رجعت پسندانہ اور عصمت دری کے متاثرین کے لئے ظالمانہ قرار دیا ہے۔
اپنے بیان میں کمیشن نے کہا کہ ملک میں تحقیقات کے ناقص طریقہ کار اور خوف سے گواہوں کے سامنے نا آنے کی وجہ سے حالات پہلے ہی آبرویزی کرنے والوں کے حق میں ہیں۔ اس لئے ڈی این اے معائنے کے نتائج جیسی غیر متنازع شہادت پر انحصار نا کرنا ’’احمقانہ‘‘ اقدام ہے۔
قائداعظم یورنیورسٹی کے جنڈر اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ فرزانہ باری کہتی ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی تجویز پر عمل درآمد کی صورت میں عصمت درری کرنے والوں کو چھوٹ حاصل ہو جائے گی اور معاشرے میں خواتین مزید عدم تحفظ کا شکار ہو جائیں گی۔
’’ریاستی سطح پر ابہام ہے زندگی کی کچھ چیزیں اسلامی قوانین کے تحت چلائی جارہی ہیں، شریعت کورٹ بنادی گئی ہیں تو کہیں سول کورٹ اور کہیں جرگے کا نظام۔ کچھ پتہ نہیں چل رہا ہے اور ریاست کو عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ سے متعلق ریاست کی سوچ ایک نہیں۔‘‘
پاکستان کا ڈان اخبار اپنے اداریہ میں لکھتا ہے کہ اگرچہ اسلامی نظریاتی کونسل ایک مشاورتی ادارہ ہے لیکن اسلامی تعلیمات کی روشنی میں معاشرتی معاملات پر اس کی سفارشات کو حتمی سمجھا جانے لگا ہے۔
’’ آج پارلیمان میں تمام مذہبی جماعتوں کے نمائندے موجود ہیں اس لئے اخلاقی طور پر قانون بنانے یا ختم کرنے کا اختیار صرف اراکین پارلیمنٹ پاس ہے۔‘‘
اداریہ میں تجویز دی گئی ہے کہ کونسل کی بجائے اگر ضرورت ہو تو اس بارے میں ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے۔
اسلامی نظریاتی کونسل نے حال ہی میں اپنی تجویز میں کہا ہے کہ جنسی تشدد کے واقعات میں ڈی این اے معائنے کو بنیادی شہادت کے طور پر قبول نہیں کیا جاسکتا۔
اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا طاہراشرفی کا کہنا تھا کہ کونسل نے اس معاملے میں جلد بازی سے کام لیا اور کسی بھی صورت میں عصمت دری کے واقعات میں ڈی این اے معائنے کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ ایک خط کے ذریعے کونسل کے چیئرمین اور جمیعت علماء اسلام کے قانون ساز مولانا محمد خان شیرانی سے کہا ہے کہ وہ اس بارے مشاورتی عمل میں طبی ماہرین اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو شامل کریں۔
’’سعودی عرب کے ایک ادارے نے رائے دی ہے کہ زنا بالجبر میں ڈی این اے معائنہ قابل قبول نہیں مگر اس کے درجے دیکھنے ہوں گے۔ اس کے لئے تمام چیزوں کو مدنظر رکھنا ہوگا کہ کس جگہ یہ قابل قبول ہے اور کہاں نہیں۔ کسی چیز سے انکار کے لئے بھی دلیل چاہیے۔‘‘
مولانا اشرفی کی جانب سے خط ایک ایسے وقت میں آیا جب حقوق انسانی کی تنظیموں کی جانب سے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارش پر سخت تنقید کی گئی اور ملک کے چند موقر اخباروں نے اپنے اداریوں میں اس کی نظر ثانی پر زور دیا گیا۔
ہیومن رائیٹس کمیشن آف پاکستان نے کونسل کی تجویز پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے رجعت پسندانہ اور عصمت دری کے متاثرین کے لئے ظالمانہ قرار دیا ہے۔
اپنے بیان میں کمیشن نے کہا کہ ملک میں تحقیقات کے ناقص طریقہ کار اور خوف سے گواہوں کے سامنے نا آنے کی وجہ سے حالات پہلے ہی آبرویزی کرنے والوں کے حق میں ہیں۔ اس لئے ڈی این اے معائنے کے نتائج جیسی غیر متنازع شہادت پر انحصار نا کرنا ’’احمقانہ‘‘ اقدام ہے۔
قائداعظم یورنیورسٹی کے جنڈر اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ فرزانہ باری کہتی ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی تجویز پر عمل درآمد کی صورت میں عصمت درری کرنے والوں کو چھوٹ حاصل ہو جائے گی اور معاشرے میں خواتین مزید عدم تحفظ کا شکار ہو جائیں گی۔
’’ریاستی سطح پر ابہام ہے زندگی کی کچھ چیزیں اسلامی قوانین کے تحت چلائی جارہی ہیں، شریعت کورٹ بنادی گئی ہیں تو کہیں سول کورٹ اور کہیں جرگے کا نظام۔ کچھ پتہ نہیں چل رہا ہے اور ریاست کو عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ سے متعلق ریاست کی سوچ ایک نہیں۔‘‘
پاکستان کا ڈان اخبار اپنے اداریہ میں لکھتا ہے کہ اگرچہ اسلامی نظریاتی کونسل ایک مشاورتی ادارہ ہے لیکن اسلامی تعلیمات کی روشنی میں معاشرتی معاملات پر اس کی سفارشات کو حتمی سمجھا جانے لگا ہے۔
’’ آج پارلیمان میں تمام مذہبی جماعتوں کے نمائندے موجود ہیں اس لئے اخلاقی طور پر قانون بنانے یا ختم کرنے کا اختیار صرف اراکین پارلیمنٹ پاس ہے۔‘‘
اداریہ میں تجویز دی گئی ہے کہ کونسل کی بجائے اگر ضرورت ہو تو اس بارے میں ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے۔