اسلام آباد —
حالیہ برسوں میں پاکستان میں عورتوں کے چہروں کو تیزاب سے مسخ کیے جانے یا انہیں خاندان کی ناموس کے نام پر ہلاک کیے جانے سے بچانے کے لیے قانون منظور کیے گئے ہیں۔ عورتوں پر ظلم و زیادتی خلاف ِ قانون قرار دیے جانے کے باوجود یہ سلسلہ جاری ہے۔ لیکن کچھ ایسے افراد بھی ہیں جو اس وقت سینہ سپر ہو جاتے ہیں جب قانون ان کو بے سہارا چھوڑ دیتا ہے۔
عاصمہ صرف چار سال کی تھی جب اس کے باپ نے اسے ایک اور گھرانے کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ اس گھرانے اور قبائلی عمائدین کا مطالبہ تھا کہ عاصمہ اپنی اس بہن کی جگہ لے جو ان کے گھر سے بد سلوکیوں اور مظالم سے بچنے کے لیے فرار ہوگئی تھی۔
لیکن اس کے باپ نے قبائلی رواج کے سامنے جسے ’سوارہ‘ کہتے ہیں، ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا ۔ دوسرے خاندان نے اس کے جواب میں اسے ، اس کے ایک بیٹے سمیت ہلاک کر دیا۔
مقتول کی بیوہ، بخت جاناں کو وہ رات یاد ہے جب قبائلی سرداروں نے فیصلہ دیا تھا کہ وہ اپنی بیٹی سے دستبردار ہو جائے۔ انھوں نے کہا کہ ’’مجھے سخت غصہ تھا اور میں بہت پریشان تھی ۔ میں بہت روئی پیٹی۔ میں اپنی چھوٹی سی بچی کو سوارہ میں دینے کو تیار نہیں تھی۔ یہ ایک ظالمانہ رسم ہے جو قبائل میں برسوں سے چلی آ رہی ہے۔ اس رسم کو ختم کرنے کی کوشش میں ،میں اپنے شوہر اور بیٹے سے ہاتھ دھو بیٹھی۔‘‘
بخت جاناں اور ان کے بقیہ گیارہ بچوں کو مجبوراً اپنا گاؤں چھوڑنا پڑا۔ ان کے بیٹے حفیظ الرحمان کہتےہیں کہ پاکستان سے سوارہ کی رسم مکمل طور پر ختم ہونی چاہیئے ۔
حکومت اس رسم کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے۔ اگر حکومت دہشت گردی کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے، تو پھر اس رسم کے خلاف کیوں نہیں؟ حکومت اس رواج کے خلاف احکامات جاری کر سکتی ہے، اور پولیس کو ہمارے گاؤں میں، ان احکامات پر عمل درآمد کرانا چاہیئے۔
پارلیمینٹ کے رکن ریاض فتیہانہ کہتےہیں کہ حکومت نے عورتوں کی حفاظت کے لیے قانون بنا دیے ہیں، لیکن اصل مسئلہ مقامی سطح پر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’پہلا مسئلہ تو یہ ہے کہ پولیس اس ظلم کا شکار ہونے والوں کے ساتھ تعاون نہیں کرتی اور وہ کیس رجسٹر کرنے میں دلچسپی نہیں لیتی۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ عدالتوں کو فیصلہ سنانے میں کئی برس لگ جاتے ہیں، اور اس دوران گواہوں اور متاثرین کے گھر کے لوگوں کی حفاظت کا کوئی بندوبست نہیں ہوتا۔‘‘
پاکستان کے شمال مغربی حصے میں اور قبائلی اور جاگیر داری نظام کے زیرِ اثر جنوب مغربی علاقوں میں، عورت کو جائیداد سمجھنے اور اسے قرضوں کی ادائیگی کے لیے استعمال کرنے کا رواج عام ہے۔
لیکن اسلام آباد کی قائدِ اعظم یونیورسٹی کی پروفیسر فرزانہ باری کہتی ہیں کہ عورتوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھنا ایسا تصور ہے جو پورے معاشرے میں پھیلا ہوا ہے۔
’’معاشرے میں عورت کے مقام کو جوں کا توں رکھنے اور ان کی روایتی حیثیت تبدیل نہ کرنے کا ایک معاشی پہلو ہے، اور مملکت اسے تبدیل کرنا نہیں چاہتی۔ صحیح معنوں میں تبدیلی لانے کے لیے حکومت میں حوصلے کی کمی ہے۔ ٹھیک ہے کہ کچھ نمائشی اقدامات کیے گئے ہیں۔ قانون منظور کر لیا جاتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی اس بات کا انتظام بھی کر لیا جاتا ہے کہ اس پر عمل نہ ہونے پائے۔
حفیظ الرحمان نے بڑے دکھ اٹھائے ہیں، لیکن اس کے باوجود، وہ دوسروں کو قائل کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ وہ اپنی بیٹیوں اور بہنوں کے حقوق کے لیے اٹھ کھڑے ہوں، جیسا کہ ان کے گھرانے نے ان کی بہن عاصمہ کے لیے کیا تھا۔
عاصمہ صرف چار سال کی تھی جب اس کے باپ نے اسے ایک اور گھرانے کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ اس گھرانے اور قبائلی عمائدین کا مطالبہ تھا کہ عاصمہ اپنی اس بہن کی جگہ لے جو ان کے گھر سے بد سلوکیوں اور مظالم سے بچنے کے لیے فرار ہوگئی تھی۔
لیکن اس کے باپ نے قبائلی رواج کے سامنے جسے ’سوارہ‘ کہتے ہیں، ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا ۔ دوسرے خاندان نے اس کے جواب میں اسے ، اس کے ایک بیٹے سمیت ہلاک کر دیا۔
مقتول کی بیوہ، بخت جاناں کو وہ رات یاد ہے جب قبائلی سرداروں نے فیصلہ دیا تھا کہ وہ اپنی بیٹی سے دستبردار ہو جائے۔ انھوں نے کہا کہ ’’مجھے سخت غصہ تھا اور میں بہت پریشان تھی ۔ میں بہت روئی پیٹی۔ میں اپنی چھوٹی سی بچی کو سوارہ میں دینے کو تیار نہیں تھی۔ یہ ایک ظالمانہ رسم ہے جو قبائل میں برسوں سے چلی آ رہی ہے۔ اس رسم کو ختم کرنے کی کوشش میں ،میں اپنے شوہر اور بیٹے سے ہاتھ دھو بیٹھی۔‘‘
بخت جاناں اور ان کے بقیہ گیارہ بچوں کو مجبوراً اپنا گاؤں چھوڑنا پڑا۔ ان کے بیٹے حفیظ الرحمان کہتےہیں کہ پاکستان سے سوارہ کی رسم مکمل طور پر ختم ہونی چاہیئے ۔
حکومت اس رسم کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے۔ اگر حکومت دہشت گردی کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے، تو پھر اس رسم کے خلاف کیوں نہیں؟ حکومت اس رواج کے خلاف احکامات جاری کر سکتی ہے، اور پولیس کو ہمارے گاؤں میں، ان احکامات پر عمل درآمد کرانا چاہیئے۔
پارلیمینٹ کے رکن ریاض فتیہانہ کہتےہیں کہ حکومت نے عورتوں کی حفاظت کے لیے قانون بنا دیے ہیں، لیکن اصل مسئلہ مقامی سطح پر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’پہلا مسئلہ تو یہ ہے کہ پولیس اس ظلم کا شکار ہونے والوں کے ساتھ تعاون نہیں کرتی اور وہ کیس رجسٹر کرنے میں دلچسپی نہیں لیتی۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ عدالتوں کو فیصلہ سنانے میں کئی برس لگ جاتے ہیں، اور اس دوران گواہوں اور متاثرین کے گھر کے لوگوں کی حفاظت کا کوئی بندوبست نہیں ہوتا۔‘‘
پاکستان کے شمال مغربی حصے میں اور قبائلی اور جاگیر داری نظام کے زیرِ اثر جنوب مغربی علاقوں میں، عورت کو جائیداد سمجھنے اور اسے قرضوں کی ادائیگی کے لیے استعمال کرنے کا رواج عام ہے۔
لیکن اسلام آباد کی قائدِ اعظم یونیورسٹی کی پروفیسر فرزانہ باری کہتی ہیں کہ عورتوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھنا ایسا تصور ہے جو پورے معاشرے میں پھیلا ہوا ہے۔
’’معاشرے میں عورت کے مقام کو جوں کا توں رکھنے اور ان کی روایتی حیثیت تبدیل نہ کرنے کا ایک معاشی پہلو ہے، اور مملکت اسے تبدیل کرنا نہیں چاہتی۔ صحیح معنوں میں تبدیلی لانے کے لیے حکومت میں حوصلے کی کمی ہے۔ ٹھیک ہے کہ کچھ نمائشی اقدامات کیے گئے ہیں۔ قانون منظور کر لیا جاتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی اس بات کا انتظام بھی کر لیا جاتا ہے کہ اس پر عمل نہ ہونے پائے۔
حفیظ الرحمان نے بڑے دکھ اٹھائے ہیں، لیکن اس کے باوجود، وہ دوسروں کو قائل کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ وہ اپنی بیٹیوں اور بہنوں کے حقوق کے لیے اٹھ کھڑے ہوں، جیسا کہ ان کے گھرانے نے ان کی بہن عاصمہ کے لیے کیا تھا۔