اسلام آباد —
پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے خاندانی دشمنی اور تنازعات کے حل کے لیے لڑکیوں کا رشتہ دینے جیسی فرسودہ روایات کے خلاف متعلقہ قوانین کی صوبہ خیبر پختونخواہ کے قبائلی علاقوں میں بھی اطلاق کی منظور دے دی ہے۔
ان فرسودہ روایات میں سوارہ، ونی یا بدل صلح شامل ہیں جس میں خاندانی تنازعات کو حل کرنے کے لیے جرگے کے فیصلے پر متاثرہ فریق کو دوسرا فریق اپنی بیٹی، بہن یا کوئی رشتہ دار عورت بدلے کے طور پر پیش کرتا ہے۔
ان روایات کے خلاف قانون اگرچہ 2003 ء میں پارلیمان نے منظور کیا مگر اس کا اطلاق خیبر پختونخواہ کے قبائلی علاقوں (پاٹا) میں نا تھا جہاں حقوق انسانی کی تنظیموں کے مطابق صوبے کے دیگر علاقوں کی نسبت سوارہ کے واقعات زیادہ پیش آتے ہیں۔
صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر کے مطابق اب ان قوانین کا اطلاق خیبر پختونخواہ کے اضلاع میں بھی ہو گا جس کے تحت ایسی روایات پر عمل درآمد کرنے والے کو تین سے سات سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزائیں دی جا سکیں گی۔
پاکستان میں خواتین مخالف فرسودہ معاشرتی روایات اور ان پر ہونے والے تشدد کے خاتمے کے لیے نا صرف بین الاقوامی سطح پر بلکہ ملک کے اندر بھی حقوق انسانی کی تنظیمیں موثر اقدامات کا مسلسل مطالبہ کرتی آئی ہیں۔
خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکن اور سوارہ اور خواتین کے دیگر مسائل سے متعلق دستاویزی فلم ساز ثمر من اللہ نے جمعرات کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں سوارہ کو سنگین مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہتی ہیں۔
’’لوگ صدیوں سے اس پر عمل در آمد کر رہے ہیں اور لوگوں کو سزائیں نہیں ملتی آرہیں تو وہ اس بات پر یقین کرتے ہیں کہ اس کے لیے وہ قانون کو بھی پاتھ میں لے سکتے ہیں کیونکہ یہ روایت ہے اور اسے بچانا ہی ہمارے لیے سب سے اہم ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ قبائلیوں کی طرف سے حملوں کی ڈر سے سوارہ کے واقعات ذرائع ابلاغ میں رپورٹ نہیں ہوتے۔
ثمر من اللہ کا کہنا ہے کہ متعلقہ قانون کی خیبر پختونخواہ کے قبائلی علاقوں میں اطلاق کی منظوری ایک علامتی مگر درست قدم ہے کیونکہ ان کے مطابق اس سے عوام کو پیغام جاتا ہے کہ ایسی روایات پر عمل درآمد کو حکومت اب ریاست کے خلاف جرم سمجھتی ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ قانون کا موثر نفاذ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ایک چیلنج ہوگا۔
’’جب دور دراز کسی گاؤں میں کسی کو علم ہی نا ہو کہ کون سا قانون ہے اور کس طرح پولیس سے رجوع کرنا ہے تو یہ (قانون) صرف ایک کاغذ کا ٹکڑا ہے اور اس سے زیادہ اہم بات میرا اپنا مشاہدہ ہے کہ پولیس یا دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو کارروائی کرنے کے بارے میں بھی آگاہی ہی نہیں اور نا کوئی احساس۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ جن علاقوں میں سوارہ کے واقعات پیش آتے ہیں وہاں کی مقامی مساجد چند مولوی بھی اس روایت کو غیر اسلامی سمجھتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی 18 کروڑ آبادی کا نصف خواتین پر مشتمل ہے۔ ماہرین اور انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ حکومت اور سول سوسائٹی کے مقامی آبادی اور مذہبی شخصیات سے مل کر کام کرنے ہی سے سوارة اور ونی جیسی فرسودہ اور غیر انسانی روایات کے خاتمے کے اہداف حاصل ہو سکیں گے۔
ان فرسودہ روایات میں سوارہ، ونی یا بدل صلح شامل ہیں جس میں خاندانی تنازعات کو حل کرنے کے لیے جرگے کے فیصلے پر متاثرہ فریق کو دوسرا فریق اپنی بیٹی، بہن یا کوئی رشتہ دار عورت بدلے کے طور پر پیش کرتا ہے۔
ان روایات کے خلاف قانون اگرچہ 2003 ء میں پارلیمان نے منظور کیا مگر اس کا اطلاق خیبر پختونخواہ کے قبائلی علاقوں (پاٹا) میں نا تھا جہاں حقوق انسانی کی تنظیموں کے مطابق صوبے کے دیگر علاقوں کی نسبت سوارہ کے واقعات زیادہ پیش آتے ہیں۔
صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر کے مطابق اب ان قوانین کا اطلاق خیبر پختونخواہ کے اضلاع میں بھی ہو گا جس کے تحت ایسی روایات پر عمل درآمد کرنے والے کو تین سے سات سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزائیں دی جا سکیں گی۔
پاکستان میں خواتین مخالف فرسودہ معاشرتی روایات اور ان پر ہونے والے تشدد کے خاتمے کے لیے نا صرف بین الاقوامی سطح پر بلکہ ملک کے اندر بھی حقوق انسانی کی تنظیمیں موثر اقدامات کا مسلسل مطالبہ کرتی آئی ہیں۔
خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکن اور سوارہ اور خواتین کے دیگر مسائل سے متعلق دستاویزی فلم ساز ثمر من اللہ نے جمعرات کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں سوارہ کو سنگین مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہتی ہیں۔
’’لوگ صدیوں سے اس پر عمل در آمد کر رہے ہیں اور لوگوں کو سزائیں نہیں ملتی آرہیں تو وہ اس بات پر یقین کرتے ہیں کہ اس کے لیے وہ قانون کو بھی پاتھ میں لے سکتے ہیں کیونکہ یہ روایت ہے اور اسے بچانا ہی ہمارے لیے سب سے اہم ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ قبائلیوں کی طرف سے حملوں کی ڈر سے سوارہ کے واقعات ذرائع ابلاغ میں رپورٹ نہیں ہوتے۔
ثمر من اللہ کا کہنا ہے کہ متعلقہ قانون کی خیبر پختونخواہ کے قبائلی علاقوں میں اطلاق کی منظوری ایک علامتی مگر درست قدم ہے کیونکہ ان کے مطابق اس سے عوام کو پیغام جاتا ہے کہ ایسی روایات پر عمل درآمد کو حکومت اب ریاست کے خلاف جرم سمجھتی ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ قانون کا موثر نفاذ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ایک چیلنج ہوگا۔
’’جب دور دراز کسی گاؤں میں کسی کو علم ہی نا ہو کہ کون سا قانون ہے اور کس طرح پولیس سے رجوع کرنا ہے تو یہ (قانون) صرف ایک کاغذ کا ٹکڑا ہے اور اس سے زیادہ اہم بات میرا اپنا مشاہدہ ہے کہ پولیس یا دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو کارروائی کرنے کے بارے میں بھی آگاہی ہی نہیں اور نا کوئی احساس۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ جن علاقوں میں سوارہ کے واقعات پیش آتے ہیں وہاں کی مقامی مساجد چند مولوی بھی اس روایت کو غیر اسلامی سمجھتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی 18 کروڑ آبادی کا نصف خواتین پر مشتمل ہے۔ ماہرین اور انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ حکومت اور سول سوسائٹی کے مقامی آبادی اور مذہبی شخصیات سے مل کر کام کرنے ہی سے سوارة اور ونی جیسی فرسودہ اور غیر انسانی روایات کے خاتمے کے اہداف حاصل ہو سکیں گے۔