پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ کے پُر فضا مقام وادی سوات میں حالیہ مہینوں میں خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے اور اطلاعات کے مطابق گزشتہ سال کی آخری سہ ماہی میں یہاں خواتین پر تشدد کے 39 واقعات میں 26 خواتین قتل ہو چکی ہیں۔
اسی عرصے کے دروان 16 خواتین کی طرف سے خودکشی کیے جانے کی اطلاعات بھی سامنے آ چکی ہیں۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک سرگرم کارکن سوات میں خواتین کے جرگہ کی بانی تبسم عدنان کے خیال میں ان واقعات میں اضافے کی وجہ غربت اور کم علمی ہے۔
ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ لوگوں میں شعور کی کمی کے ساتھ ساتھ اکثر میاں بیوی کے درمیان ذہنی ہم آہنگی کے فقدان کے باعث بھی مہلک واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔
"ہمارے مطالعے میں جو زیادہ کیسز سامنے آئے ان کی وجہ غربت تھی۔ پھر میاں بیوی میں ہم آہنگی نہیں ہے وہ ایک دوسرے کو سمجھتے نہیں ہیں۔ ہمارے لوگوں کی کم علمی ہے حالانکہ اسلام میں بھی یہی حکم ہے کہ شادی سے پہلے لڑکے اور لڑکی کی رضامندی پوچھی جائے لیکن یہاں ایسا نہیں ہوتا ہے جس سے آگے چل کر مسائل پیدا ہوتے ہیں۔"
خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے قوانین تو موجود ہیں لیکن تبسم عدنان کے بقول لوگوں میں اس بارے میں آگاہی بہت کم ہے جس کے لیے حکومت اور غیر سرکاری تنظیموں کو مقامی آبادیوں کی تجاویز اور ضروریات کے مطابق آگاہی مہم چلانے کی ضرورت ہے۔
"ہم چاہتے ہیں کہ ٹی وی پر اشتہارات چلائے جائیں جس طرح مختلف سیاسی جماعتیں اپنے (منشور کے) بارے میں چلاتی ہیں کیونکہ غیر سرکاری تنظیمیں تو اپنے اجلاس کرتی ہیں چند لوگ آتے ہیں اور بات کر کے چلے جاتے ہیں اس سے وہ نتائج حاصل نہیں ہوتے۔"
وادی سوات کو 2006ء سے 2009ء تک طالبان کی سخت گیری کا سامنا رہا ہے جس میں طالبان عسکریت پسندوں نے حکومت کی عملداری کو چیلنج کرتے ہوئے یہاں اپنا تسلط قائم کر رکھا تھا۔
فوج کی طرف سے 2009ء میں آپریشن راہ راست کے ذریعے یہاں سے طالبان عسکریت پسندوں کو مار بھگایا گیا لیکن اس کے بعد بھی آئے روز کسی نہ کسی علاقے سے تشدد کے واقعات کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔