اس دن کی مناسبت سے اپنے پیغام میں صدر آصف علی زرداری نے ملک میں پارلیمنٹ کے اراکین پر زور دیا کہ وہ آئین میں موجود ایسے قوانین کا ازسرنو جائزہ لیں جو مبینہ طور پرعورتوں کے خلاف امتیازی سلوک کا باعث ہیں۔انھوں نے اس سلسلے میں ملک کی تمام سیاسی جماعتوں سے اپیل کی کہ وہ ان کوششوں میں حکومت کے ساتھ مل کر کام کریں ۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں منعقدہ ایک خصوصی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ ان کی حکومت خواتین کے خلاف امتیازی قوانین میں ترامیم کی کوششیں کررہی ہے اور اس حوالے سے انھوں نے پارلیمان سے حال ہی میں منظور کیے گئے اس قانون کا ذکر کیا جومقام کار پر عورتوں کو ہراساں کرنے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔
علاوہ ازیں وزیراعظم نے بتایا کہ خواتین کے خلاف گھریلو تشدد کو روکنے کے لیے بھی ایک مجوزہ قانون نافذ کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں جب کہ خواتین کو جائیداد میں حصہ دینے کو یقینی بنانے کے لیے بھی قانون سازی کا عمل جاری ہے۔
اپنی تقریر میں وزیراعظم گیلانی نے کہا کہ ترمیم شدہ قوانین کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے انھوں نے متعلقہ اداروں کو ضروری ہدایات جاری کررکھی ہیں جب کہ اس موقع پر انھوں نے خاتون محتسب کے دفتر کے قیام کا اعلان بھی کیا۔
واضح رہے کہ پاکستان میں نافذ العمل قوانین میں حدود آرڈیننس کی تنسیخ کے لیے انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں ایک طویل عرصے سے مہم چلا رہی ہیں اور ان ہی مطالبات کے پیش نظر اس قانون میں حالیہ برسوں میں بعض قابل ذکر ترامیم بھی کی گئیں ہیں جس کے بعد جنسی تشدد کا شکار ہونے والی خاتون کو بغیر گواہ مقدمہ درج کرانے کا اختیار دیا گیا ہے جب کہ ماضی میں ایسے تشدد کا شکار خواتین جب اپنا کیس درج کرانے کے لیے پولیس سے رجوع کرتیں تو خود انھیں ہی گرفتار کرلیا جاتا۔
دریں اثناء سوات کے مرکزی شہر سیدو شریف سینکڑوں خواتین نے ایک ریلی نکالی جس کا اہتمام صوبائی اسمبلی کی خواتین اراکین اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں نے کیا تھا۔ریلی کے قائدین نے اس موقع پر اپنی تقاریر میں سوات میں خواتین کے حقوق کے فروغ کے لیے کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔
منتظمین کے مطابق اس ریلی کا مقصد دہشت گردی سے متاثرہ خواتین کی بحالی کی کوششیں سے انھیں آگاہ کرنا ہے۔خواتین کے عالمی دن کے موقع پر منعقد کی گئی یہ ریلی وادی میں زندگی معمول پر آنے کی نشاندہی کرتی ہے۔