اُن کے خیال میں شاید پاکستان کی نوجوان نسل ایک بات پر ضرور متفق ہے کہ وہ اپنے والدین کی جنریشن سے مایوس ہے، اور اپنے ملک میں اعلیٰ سطح پر فوج، حکومت، سول سوسائٹی میں موجود لوگوں سے بھی--کہ، وہ ملک کو درست سمت میں نہیں لے جاسکے۔
اُنھوں نے یہ بات ’وائس آف امریکہ‘ سے خصوصی گفتگو میں کہی۔ آصف میمن نے ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کے فل برائٹ سکالرشپ پر جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے حال ہی میں ایجوکیشن میں پی ایچ ڈی مکمل کی ہے۔
اُن کے بقول، اُنھیں پاکستان میں انتہا پسندی کے رجحان سے ڈر لگتا ہے۔ ’یہ لوگوں کے حقوق اور آزادیوں پر ایک ضرب ہے۔ ایک حملہ ہے اور اس چیز سے مجھے ڈر لگتا ہے‘ ۔
پاکستان کے مستقبل سے اچھی امیدیں وابستہ کرنے و الے آصف میمن کہتے ہیں کہ پچھلے دس سال میں پاکستان میں کوئی نئے مسائل پیدا نہیں ہوئے، مگر پہلے سے موجود کچھ مسائل زیادہ کھل کر سامنے آئے ہیں، ’جیسے انتہا پسندی، ناخواندگی، اقلیتوں اور خواتین کے حقوق، غربت، سست روی کی شکار معاشی ترقی یا مہنگائی‘۔
آصف کہتے ہیں کہ انہوں نے انٹر پری میڈیکل میں کیا تھا۔ جب انٹر کرلیا تو سوچا ڈاکٹر نہیں بننا۔ اس زمانے میں بہت سے لوگ بزنس اور کمپیوٹر سائنس کی طرف جا رہے تھے۔
بزنس ایڈمنسٹریشن پڑھنے کے دوران ان کا رجحان فنانس اور بینکنگ کی طرف ہوگیا۔ کئی انٹرن شپس اور اسٹیٹ بینک میں کام کرنے کےدوران انہیں پاکستان کی معاشی پالیسی، غربت کے مسئلے اور تعلیم کے شعبے میں دلچسپی پیدا ہوئی۔
فل برائٹ سکالر شپ کے حصول کا طریقہ کار کتنا مشکل تھا؟
پاکستان سے اعلی تعلیم کے لئے امریکہ آنے والے طلباٴ میں سے کچھ ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کے ذریعے منتخب ہوکر آتے ہیں اور کچھ یونائیڈ اسٹیٹس ایجو کیشن فاوٴنڈیشن فار پاکستان کے ذریعے۔ فل برائٹ سکالرشپ پر منتخب ہونےو الے طلباٴ یونائیڈ اسٹیٹس ایجو کیشن فاوٴنڈیشن فار پاکستان کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں۔ یہ امریکی سکالر شپ ہے مگر کافی سکالر شپس ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے سکالر شپس بھی ہیں، جو حکومت پاکستان امریکی امداد کی رقم سے دیتی ہے ۔
آصف میمن کا کہنا ہے کہ فل برائٹ سکالرشپ کےلئے پاکستان میں ہزاروں نوجوان درخواستیں دیتے ہیں، جن میں سے 100 افراد کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے فل برائٹ سکالرشپ پر ماسٹرز اور پی ایچ ڈی پروگرام میں شامل ہونے کا طریقہ کار کچھ طویل ہے۔
اخبار میں تقریباً ایک سال پہلے اشتہار آتا ہے کہ مختلف لیول کے اتنے سکالر شپس کے لئے درخواستیں دی جا سکتی ہیں ۔چونکہ، میرا ہمیشہ سے امریکہ سے پی ایچ ڈی کرنے کا ارادہ تھا، جو سکالرشپ کے بغیر ممکن نہیں تھا، اس لیے اشتہار آنے کے بعد میں نے کچھ فارم بھر کے بھیجے۔
امریکی یونیورسٹیوں میں ماسٹرز یا پی ایچ ڈی سطح کے داخلے کے لئے کچھ ٹیسٹ جیسے جی آر ای یا ایس اے ٹی دینے پڑتے ہیں۔ جس میں امیدوار کی انگریزی کی استعداد کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ اگر اس کی کارکردگی تسلی بخش ہو، تو وہ انٹرویو کے لئے منتخب ہو جاتا ہے۔ آپ نے جس شعبے میں پڑھنے میں دلچسپی ظاہر کی ہو اس بارے میں انٹرویو میں سوال کئے جاتے ہیں۔
اُن کے الفاظ میں: ’میں یو ایس ای ایف پی والے پراسیس کے نتیجے میں سکالرشپ پر منتخب ہوا تھا۔ جو مکمل طور پر میرٹ پر مبنی ہوتا ہے۔ لیکن، جہاں تک میں جانتا ہوں ہائیر ایجوکیشن کا ادارہ پاکستان کےکم بدعنوان اداروں میں سے ایک ہے۔ گوکہ میں کئی ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو شکایت کرتے ہیں کہ ہمارا ایچ ای سی کے ذریعے سیلیکشن نہیں ہوا کیونکہ میں فلاں صوبے سے تعلق رکھتا ہوں یا میری مادری زبان فلانی ہے۔ لیکن، میرے پاس اس بات کا کوئی ثبوت نہیں‘۔ اس سلسلے میں، اُنھوں نے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے سابق سربراہ ڈاکٹر عطا الرحمان اور موجودہ سربراہ ڈاکٹر جاوید لغاری دونوں کی تعریف کی۔
‘
جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں پڑھنا ایک محنت طلب کام تھا
آصف میمن کہتے ہیں کہ ان کا ارادہ ایجوکیشن میں پی ایچ ڈی کرنے کا تھا۔
اُن کے بقول، اُن کا انٹرویو دسمبر 2006میں ہوا اور جنوری یا فروری تک پتہ چل گیا تھا کہ فل برائٹ کے لئے اُن کا سیلیکشن ہو گیا ہے۔ اس کے بعد آپ کو اپنی پسند کی پانچ یونیورسٹیز بتانی ہوتی ہیں۔۔ جس میں آپ کی مرضی کا شعبہ موجود ہو۔ ۔جس کے بعد ایڈمشن، ہوتا ہے۔
’میرا داخلہ پانچ میں سے دو یونیورسٹیز میں ہوا تھا۔۔ ایک نیویارک یونیورسٹی اور دوسری جارج واشنگٹن یونیورسٹی۔ میں اگست 2007ء میں واشنگٹن ڈی سی پہنچا۔ اور میری پی ایچ ڈی کی کلاسز شروع ہوئیں۔ امریکہ میں اعلی تعلیم کا حصول طالب علم سے کڑی محنت کا تقاضہ کرتا ہے۔ دو سال پڑھنے کے بعد دو دن تک مسلسل آپ کے امتحان ہوتے ہیں۔ جن میں کامیابی کے بعد آپ کو اپنا پی ایچ ڈی کا تھیسس کرنا ہوتا ہے۔ تین سال تک میں نے اس کے لئے ریسرچ کی۔ میں ڈیٹا جمع کرتا تھا۔ میرے تین سپروائزر میرے کام کا جائزہ لیتے رہے اور جہاں ضرورت ہوئی وہاں میری رہنمائی کرتے رہے۔ اور میرے خیال میں اسی وجہ سے امریکی تعلیمی نظام پاکستان کے تعلیمی نظام سے مختلف ہے۔ یہاں سٹوڈنٹس کے ذہن کو کچھ زیادہ چیلنج کیا جاتا ہے اور یہاں سٹوڈنٹس زیادہ سیکھتے ہیں‘۔
آصف میمن کہتے ہیں کہ کچھ حد تک امریکہ کی تعلیمی امداد کے فائدے ہوئے ہیں۔
’امریکہ سے جو لوگ سکالر شپس پر پی ایچ ڈی یا ماسٹرز کر رہے ہیں یا کر چکے ہیں وہ جب پاکستان جائیں گے تو ان میں سے کئی لوگ یونیورسٹیوں میں پڑھائیں گے یا ریسرچ کے شعبے میں جائیں گے۔ اس کی پاکستان کے تعلیمی نظام میں بہت ضرورت ہے۔ یعنی صرف ماسٹرز اور پی ایچ ڈیز کی نہیں مگر ایک خاص طریقے سے ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کئے ہوئے لوگوں کی ضرورت ہے۔۔ پاکستان میں ریسرچ یا انالسز میں ڈیٹا کو دیکھ کر، ریسرچ کر کے، صحیح طریقے سے معلومات کرنے کی قابلیت رکھنے والے لوگوں کی بہت ضرورت ہے، اور ہمارے پاس ایسے لوگ بہت کم ہیں جو صحیح طریقے سے ڈیٹا جمع کرنے۔ اس کا تجزیہ کرنے اور اسے ریسرچ میں استعمال کرکے پالیسیوں پر اثرانداز ہو سکیں‘۔
وطن واپس جاکر پاکستان کے تعلیمی نظام پر تحقیق کرنا چاہتا ہوں
آصف میمن پاکستان واپس جاکر پڑھانا چاہتے ہیں اور ملک کے تعلیمی نظام پر تحقیق کرنا چاہتے ہیں۔
ان کے خیال میں پاکستان میں اکثراوقات لوگ تعلیمی نظام میں خامیاں نکالتے ہیں لیکن یہ جاننے کی کوشش نہیں کرتے کہ خرابی دراصل کہاں ہے۔
اُن کے بقول، ’کیا ہمیں اساتذہ کی ٹریننگ پر پیسے خرچ کرنے چاہئیں؟ یا نئے سکول بنانے پر توجہ دینی چاہئیے؟ کیا ہمیں اپنا تعلیمی سیلیبس بدلنا چاہئے؟ کیا ہمیں والدین کی ٹریننگ کرنی چاہئے کہ بچوں کی تعلیم کیوں ضروری ہے اور انہیں سکول بھیجیں؟ جیسے ہمارے دیہاتی علاقوں میں اکثر والدین اپنے بچوں کو سکول نہیں بھیجتے۔ تو میں اس تحقیق میں شوق رکھتا ہوں‘ ۔
لیکن آصف میمن جیسے کتنے پاکستانی نوجوان بیرون ملک سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد پاکستان واپس جانا چاہتے ہیں؟
آصف کا کہنا ہے کہ فل برائٹ سکالرشپ پر بیرون ملک سے تعلیم حاصل کرنے والےقانونی طور اپنے ملک واپس جاکر کام کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔ لیکن، اگر قانونی ضرورت نہ ہوتی تو اکثر لوگ شائد واپس نہ جاتے۔
’جب میں اپنی پہلی سکالر شپ پر انگلینڈ گیا تھا تب تک اپنے ملک واپس جانے کی کوئی قانونی پابندی نہیں تھی۔ لیکن، میں پاکستان واپس گیا اور دو سال پڑھانے کے بعد دوبارہ سکالرشپ پر امریکہ آیا۔ جبکہ، میرے ساتھ کے کئی لوگ ایسے بھی ہیں جو کچھ عرصے بیرون ملک رہنے کے بعد پاکستان واپس گئے۔ لیکن، میرے خیال میں یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے کیونکہ ان کی تعلیم پر پاکستانی حکومت کے نہیں امریکی حکومت کے پیسے خرچ ہو رہے ہیں۔ ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان میں ساٹھ ستر کی دہائی میں ہزاروں ہندوستانی سکالر شپس پر ہندوستانی حکومت کے خرچے پر باہر پڑھنے گئے تھے ۔اور کئی سال تک واپس نہیں آئے۔ مگر 20سال بعد کئی لوگ ہندوستان واپس گئے اور انہوں نے اپنے ملک کو فائدہ پہنچایا۔ تو وقتی طور پر تو اس برین ڈرین کا کچھ نقصان ہوا، لیکن بعد میں اس کے فائدے ہوئے۔ کئی لوگوں نے جو امریکہ میں، انگلستان میں سیٹل ہو گئے، انہوں نے مائیکرو سوفٹ میں، ایپل میں یا کسی دوسری اہم کمپنی میں ملازمت کی یا اپنے کاروبار کئے ۔ یہی لوگ کئی سال بعد اپنے ملک واپس گئے اور اب وہاں پر سرمایہ کاری کر رہے ہیں ۔ یعنی انہوں نے20 سال میں جتنا تجربہ حاصل کیا، اس کا اب ان کے ملک فائدہ اٹھا رہے ہیں‘۔
’لیکن، مجھے افسوس ہوتا ہے یہ دیکھ کر کہ کچھ لوگ اس انتظار میں ہیں کہ کس طریقے سے وہ بہتر زندگی کے لئے پاکستان چھوڑ کر باہر چلے جائیں ۔ میں انہیں برا تو نہیں کہہ سکتا۔ کیونکہ، ہر شخص کو اپنے لئے بہتر زندگی ڈھونڈنے کا حق ہے۔ میں بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں کوئی بڑا محب وطن ہوںاور میں فاقے کر کے بھی پاکستان میں رہوں گا۔ لیکن میں چاہتا ہوں کہ میں وطن واپس جاکر کوئی اچھا کام کرتے ہوئے اچھی زندگی گزار وں، جس میں مجھے لطف آئے اور اچھی تنخواہ ملے۔ اور جب تک میں ایسا کر سکوں گا ، کروں گا‘۔