اسلام آباد —
وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے ہفتہ کو اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ ملک میں شرح خواندگی بڑھانے کے لیے تمام حلقے اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔
انُھوں نے اس موقع پر تعلیم کا بجٹ بڑھانے کی یقین دہانی بھی کرائی۔ ’’کسی نے یہ رکاوٹ تو ختم کرنی ہے۔۔۔ جتنا ہو سکتا ہے ہم تعلیم کے بجٹ کو آگے لے کر جائیں گے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ معاشرتی اور سماجی ترقی کے لیے تعلیم انتہائی ضروری ہے۔
’’چند مٹھی بھر لوگ ہیں، جن کو شاید آپ گمراہ لوگ کہہ رہے ہیں جن کو یہ نہیں پتا کہ ہم کیا کر رہے ہیں یا وہ لوگ جو روز مرہ کی چھوٹی موٹی چیزیں غلط کرتے ہیں ان میں شعور اور علم کی کمی ہے تو ساری ذمہ داری ان پر نہیں بلکہ معاشرے پر بھی ڈالی جا سکتی۔‘‘
ملک میں خواندگی کی شرح کو بڑھانے کے لیے حالیہ مہینوں میں حکومت نے کئی اہم اعلانات کیے ہیں جن میں آئندہ چار سالوں کے دوران 30 لاکھ بچوں کو اسکول بھیجنے کا ’وسیلہ تعلیم ‘ نامی منصوبہ بھی شامل ہے۔
رواں ہفتے قومی اسمبلی میں ایک بل کی متفقہ منظوری دی گئی جس کے تحت وفاق کے زیر انتظام تعلیمی اداروں میں پانچ سے سولہ سال کی عمر تک کے بچوں کے لیے مفت تعلیم کی فراہمی کو لازمی قرار دیا گیا۔
بل کے تحت جو والدین اور آجر اپنے بچوں کو قریبی اسکول نہیں بھیجیں گے ان کو 50 ہزار روپے جرمانہ اور تین سال کی سزا دی جا سکے گی جبکہ تمام نجی اسکولوں میں مستحق طلبا کے لیے دس فیصد کوٹہ مختص ہو گا۔
پاکستان میں اس وقت شعبہ تعلیم کے لیے سالانہ قومی بجٹ میں دو فیصد سے بھی کم رقم مختص کی جاتی ہیں اور ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ شرح خواندگی میں اضافے کے لیے ضروری ہے کہ تعلیم کا بجٹ تقریباً 4 فیصد تک بڑھایا جائے۔
انُھوں نے اس موقع پر تعلیم کا بجٹ بڑھانے کی یقین دہانی بھی کرائی۔ ’’کسی نے یہ رکاوٹ تو ختم کرنی ہے۔۔۔ جتنا ہو سکتا ہے ہم تعلیم کے بجٹ کو آگے لے کر جائیں گے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ معاشرتی اور سماجی ترقی کے لیے تعلیم انتہائی ضروری ہے۔
’’چند مٹھی بھر لوگ ہیں، جن کو شاید آپ گمراہ لوگ کہہ رہے ہیں جن کو یہ نہیں پتا کہ ہم کیا کر رہے ہیں یا وہ لوگ جو روز مرہ کی چھوٹی موٹی چیزیں غلط کرتے ہیں ان میں شعور اور علم کی کمی ہے تو ساری ذمہ داری ان پر نہیں بلکہ معاشرے پر بھی ڈالی جا سکتی۔‘‘
ملک میں خواندگی کی شرح کو بڑھانے کے لیے حالیہ مہینوں میں حکومت نے کئی اہم اعلانات کیے ہیں جن میں آئندہ چار سالوں کے دوران 30 لاکھ بچوں کو اسکول بھیجنے کا ’وسیلہ تعلیم ‘ نامی منصوبہ بھی شامل ہے۔
رواں ہفتے قومی اسمبلی میں ایک بل کی متفقہ منظوری دی گئی جس کے تحت وفاق کے زیر انتظام تعلیمی اداروں میں پانچ سے سولہ سال کی عمر تک کے بچوں کے لیے مفت تعلیم کی فراہمی کو لازمی قرار دیا گیا۔
بل کے تحت جو والدین اور آجر اپنے بچوں کو قریبی اسکول نہیں بھیجیں گے ان کو 50 ہزار روپے جرمانہ اور تین سال کی سزا دی جا سکے گی جبکہ تمام نجی اسکولوں میں مستحق طلبا کے لیے دس فیصد کوٹہ مختص ہو گا۔
پاکستان میں اس وقت شعبہ تعلیم کے لیے سالانہ قومی بجٹ میں دو فیصد سے بھی کم رقم مختص کی جاتی ہیں اور ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ شرح خواندگی میں اضافے کے لیے ضروری ہے کہ تعلیم کا بجٹ تقریباً 4 فیصد تک بڑھایا جائے۔