سندھ کے سابق وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کی جانب سے 28اگست کو متحدہ قومی موومنٹ اور اس کے رہنماوٴں کے خلاف لگائے جانے والے الزامات کے حوالے سے متحدہ قومی موومنٹ کا تفصیلی رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے رہنما مصطفی کمال نے کہا ہے کہ ذوالفقار مرزانے ان کی جماعت اور اس کے رہنما الطاف حسین کے خلاف جو الزامات لگائے ہیں انہیں عدالت میں ثابت کیا جائے اور جس وقت تک الزام ثابت نہ ہوجائے کسی کو مورد الزام نہ ٹھہرایا جائے۔
وہ منگل کی رات کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔ انہوں نے ذوالفقار مرزا کی جانب سے لگائے گئے تمام الزامات کا باری باری جواب دیا۔ انہوں نے کہا کہ ذوالفقار مرزا نے الزام عائد کیا ہے کہ الطاف حسین نے دو ہزار ایک میں ٹونی بلیر کو خط لکھا تھا۔ یہ الزام سراسر غلط ہے ، اس خط کو جواز بنا کر ٹی وی پر ایم کیو ایم کا میڈیا ٹرائل کیا جارہا ہے ۔ اس خط میں تو لندن میں ایم کیو ایم کے دفترکا ایڈریس بھی غلط لکھا ہے ۔ ایسا ہی ایک خط 1990 میں بھی سامنے آیا تھا کہ بے نظیر بھٹو نے امریکی سفیر کو ایک خط لکھا ہے جس میں کہا گیا کہ پاکستان کی عسکری اور معاشی امداد بند کی جائے ۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت کے انڈین وزیراعظم وی پی سنگھ کو کہا گیا کہ آپ افواج کو بارڈر پر مصروف کر دیں تاکہ افواج پاکستان اور ایجنسیوں پر دباؤ بڑھایا جائے ، ہم بے نظیر بھٹو کی جانب سے اس لکھے گئے خط کو بھی غلط سمجھتے ہیں۔
مصطفی کمال نے کہا کہ الزام ہے کہ ٹونی بلیر کو لکھے گئے خط میں الطاف حسین نے کہا کہ ایم کیو ایم ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف اور جمہوریت کے حق میں ہے ، مصطفی کمال نے کہا کہ اس نکتے میں کوئی غلط بات نہیں ، ایم کیو ایم نے سب سے پہلے دہشت گردی کے خلاف عالمی برادری کی حمایت میں اعلان کیا اور تاریخ شاہد ہے کہ اس وقت دہشت گردی کے خلاف جنگ کے مخالف آج اس کی حمایت کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہاکہ متحدہ قومی موومنٹ پر الزام لگایا گیا کہ ایم کیو ایم اندرون سندھ اور پنجاب میں مدارس کی نگرانی کرے گی اور جاسوسی کرے گی ۔ انہوں نے کہاکہ دو ہزار ایک میں اندرون سندھ میں تو اس وقت ایم کیو ایم کی انٹری ہی نہیں ہوئی تھی اور پنجاب کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ۔ خط میں تحریر تھا کہ ایم کیو ایم نے ٹونی بلیر کو پیشکش کی ہے کہ اس کے کارکنان رضاکاروں کے روپ میں افغانستان سے جاسوسی کریں گے ۔ مصطفی کمال نے جواب دیا کہ یہ ایک کھلا مذاق ہے ، ایسی ایجنسیاں جو ڈرون سے پوری دنیا کو دیکھ سکتی ہیں ، ٹیکنالوجی کے ذریعے ہزاروں میل سے اسامہ کا پتہ چلا سکتی ہیں ، انہیں ایم کیوایم کے رضا کاروں کی کیا ضرورت ہے۔ ایم کیو ایم تو آج تک پشاور میں نہیں جا سکی ۔
انہوں نے کہا کہ خط میں ایک اور الزام لگایا گیا کہ ایم کیو ایم آئی ایس آئی ختم کرانا چاہتی ہے ، جس کا جواب یہ ہے کہ 1991 میں شروع ہونے والا آپریشن دو ہزار ایک میں بھی جاری تھا لیکن اس کے باوجود ہم نے کبھی ایجنسیوں کی بات نہیں کی حالانکہ ایجنسیوں کا اس وقت کردار سب کے سامنے تھا ۔ یہ فوج اور ایم کیو ایم کے درمیان غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں ۔ نواز شریف بھی ایجنسیوں اور فوج کے خلاف بات کرتے ہیں ان کے خلاف میڈیا ٹرائل نہیں ہوتا ۔
انہوں نے کہا کہ ذوالفقار مرزا نے الزام عائد کیا کہ ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے وزیر پورٹ اینڈ شپنگ بابر غوری نے ہزاروں نیٹو کنٹینرزغائب کرائے ، یہ الزام انتہائی غلط ہے ، اگر کوئی ایسی بات تھی تو اس وقت ذوالفقار مرزا صوبائی وزیر داخلہ تھے انہوں نے اس کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھائی ، ایک سائیکل غائب ہونے کی ایف آئی آر درج ہو سکتی ہے تو آج تک کسی نیٹو کنٹینرز کے غائب ہونے کی بات کیوں نہیں کی ۔
مصطفی کمال کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم اور اردو بولنے والوں کے خلاف سازش کی جا رہی ہے۔ انیس سو بانوے میں ریاستی سطح پر ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کیا گیا۔ ایم کیو ایم کے خلاف ملک توڑنے کا الزام لگایا گیا۔ جناح پور بنانے کا الزام لگایا گیا جبکہ بعد میں میڈیا کے سامنے آکر معافی مانگی گئی اور یہ کہا گیا کہ ایم کیو ایم بے قصور ہے۔
انہوں نے کہا کہ ذوالفقار مرزا نے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے خلاف بہتان لگایاہے ۔ انہوں نے کہا کہ صوبے کی خودمختاری کا مطالبہ ہر سیاسی جماعت کرتی ہے اس میں ملک سے غداری کا پہلو کہاں سے آگیا۔
انہوں نے پریس کانفرنس کے دوران ذوالفقار مرزا اور دیگر چند شخصیات کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ اردو بولنے والوں کو دیوار سے لگانے کا سلسلہ بند کیا جائے۔