ہیوسٹن میں پاکستانی تارکینِ وطن کی بہت بڑی تعداد آباد ہے۔ ڈسکہ سے ہیوسٹن آنے والی عائشہ خالد آج وہاں کی ایک کامیاب بزنس وومن ہیں۔ یہ سب کچھ شروع ہوا گھر میں اپنی فرینڈز کو سلون سروسز دینے سے، اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے عائشہ خالد ایک کاسموٹالوجسٹ بن گئیں۔
یہ سب کیسے ہوا؟ وہ کہتی ہیں کہ ہمارے جاننے والے کے گھر میں شادی تھی۔ لیکن دلہن کو تیار کرنے کے لیے کوئی جگہ نہیں مل رہی تھی۔ جیسی دلہن ہمارے ہاں بنائی جاتی ہے، وہ ہمیں نہیں سمجھ آ رہی تھی کہ یہاں اس کے لیے کیا کیا جائے ۔ آخر میں نے کہا کہ چلو میں کوشش کر دیکھتی ہوں۔ مشکل تو ہوئی لیکن جب میں نے اسے تیار کرلیا تو سب نے تعریف کی۔بس یہی شروعات تھیں۔
ڈسکہ سے ہیوسٹن آنے والی عائشہ خالد کے شوہر چاہتے تھے کہ ان کی بیوی کی پہلی ترجیح گھر اور بچے ہوں۔
وہ بتاتی ہیں کہ میں اس لیے باہر کام نہیں کر سکتی تھی کیونکہ میرے بچے چھوٹے تھے ۔ تو میں نے گھر میں اپنی فرینڈز سے سٹارٹ کیا اور اس کے بعد جب میں نے لائسنس حاصل کر لیا تو میری شادی کی دسویں سالگرہ کا گفٹ تھا میرا پہلا سلون۔
پہلے سلون سے 14 سلونز ، بوتیکس اور سکن کیئر پراڈکٹس کی لائن کا ان کا سفر 15 سال پرپھیلا ہوا ہے۔
ہر انسان خوبصورت نظر آناچاہتا ہے ۔ جس کے لیے لوگ کسی نہ کسی طرح وقت اور بجٹ نکال ہی لیتے ہیں۔ میں نے عائشہ سے پوچھا کہ امریکہ میں آنے والے معاشی بحران نے کیا ان کے کاروبار کو بھی متاثر کیا تو انہوں نے کہا۔ نہیں۔ بلکہ جب یہ بحران آیا تو میں کچھ پریشان ہوئی تھی ۔ لیکن ایسا ہوا نہیں ہے میں نے یہ محسوس کیا کہ چاہے کچھ بھی ہوا خواتین بننا سنورنا اچھا لگتا ہے۔ جس کے لیے وہ کچھ نہ کچھ بچا کر سلون پر آ جاتی ہیں۔
عائشہ خالد کا کہنا ہے کہ ابتدا میں ان پر کافی پابندیاں تھیں لیکن انہوں نے پہلے اپنے گھر والوں کا اعتماد جیتا اور پھر اپنے خواب حاصل کیے۔
وہ کہتی ہیں کہ آپ چاہے کتنی بھی کامیاب شخصیت بن جائیں ، لیکن اگر آپ ناکام بیوی یا ناکام ماں ہیں تو پھر آپ ناکام عورت ہیں۔
عائشہ خالد کی محنت پھر وہ دن بھی لے آئی کہ ان کے شوہر اور بیٹے بھی ان بزنس میں شامل ہو گئے۔