واشنگٹن —
اگرچہ یہ طے ہو چکا ہے کہ 11 مئی کے الیکشن میں تقریباً 45 لاکھ تارکین وطن پاکستانی ووٹ نہیں ڈال سکیں گے لیکن اس چیز نے بھی دیار غیر میں رہنے والے پاکستانیوں کے جوش و جذبے کو کم نہیں کیا ہے اور وہ اب بھی کسی نا کسی طرح ان انتخابات میں اپنا کردار ادا کرنے کے بارے میں پرجوش ہیں۔
باقی دنیا کی طرح امریکہ میں بسنے والے پاکستانی بھی ان انتخابات کا شدت سے انتظار کرتے رہے ہیں۔ ووٹ دالنے کی امیدیں تو کچھ دن قبل ہی دم توڑ گئیں تھیں جس کے بعد کئی تارکین وطن قافلہ در قافلہ پاکستان روانہ ہوئے تاکہ اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں۔ نیو یارک اور واشنگٹن ڈی سی سے مختلف سیاسی جماعتوں کے حامیوں نے لوگوں کو اس بات پر اکسایا کہ وہ پاکستان جا کر ووٹ ضرور ڈالیں۔ جو لوگ نہیں جا سکے انھوں نے یہاں رہ کر بھی ان الیکشنز میں اپنا حصہ ڈالنے کے مختلف طریقے ڈھونڈ لیے۔
اس ضمن میں واشنگٹن اور اس کے گرد و نواح میں بسنے والے پاکستانی بھی نہایت متحرک نظر آرہے ہیں۔ زیادہ تر پاکستانی اپنے طور پر پاکستان میں اپنے خاندان کے افراد اور دیگر لوگوں کو ٹیلیفون کرکے اور پیغامات کے ذریعے ووٹ ڈالنے کی تلقین کررہے ہیں جبکہ کچھ تنظیمیں بھی اس سلسلے میں لوگوں کی رہنمائی کر رہی ہیں۔
شہاب قرنی ریاست میریلینڈ میں قائم ایک تنظیم نیشنل ایسوسی ایشن آف پاکستانی امریکنز کے بورڈ ممبر ہیں۔ انھوں نے انتخابات میں ووٹ نہ ڈال سکنے پر مایوسی کا اظہار کیا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی امریکن اور اوور سیز پاکستانی ہر سال 14 بلین ڈالر کا زر مبادلہ پاکستان بھیجتے ہیں جو پاکستان کی معیشت میں ایک اہم مقام رکھتا ہے ۔ ان کی تنظیم نے اور مقامی پاکستانیوں نے یہ سوچ رکھا تھا کہ اگر یہاں پاکستانی امریکنز کو ووٹ ڈالنے کی اجازت مل جاتی ہے تو وہ اپنے اپنے علاقے میں بس سروس کا انتظام کریں گے تاکہ لوگوں کو پاکستان ایمبیسی لے جایا جا سکے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ووٹ ڈالنے پر آمادہ کیا جاسکے۔‘‘
لیکن انھیں افسوس ہے کہ اس سلسلے میں زیادہ کوششیں نہیں کی گیئں ، صدر پاکستان نے آرڈیننس تو پاس کر دیا لیکن اس پر عمل درآمد کے لیے وقت نہیں دیا ۔ یہ کام کچھ دن پہلے بھی کیا جا سکتا تھا، بہر حال اب ان کی کوشش ہے کہ وہ یہاں موجود پاکستانیوں کو حرکت میں لائیں کہ وہ اب پاکستان میں موجودان لوگوں کو ووٹ ڈالنے پر آمادہ کریں جو عام طور ووٹ نہیں ڈالتے۔ شہاب قرنی کہنا تھا یہ نہایت اہم ہے کیونکہ یہ الیکشن آنے والے برسوں میں پاکستان کی سمت متعین کرے گا۔
ایک مقامی سماجی کارکن آغا حسنین وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انھوں نے الیکشن کے دن ، یعنی جمعے کی رات کو ایک مقامی ریستوران میں ایک الیکشن نائٹ کا اہتمام کیا ہے جہاں تمام کمیونٹی کے ممبران اکٹھے ہوں گے اور مل کر الیکشن میں ہونے والی پیش رفت کو براہ راست دیکھیں گے۔ اس کے ساتھ انھوں نے وہاں ایک ٹیلیفون بینک اور سکائپ سٹیشن کا انتظام بھی کیا ہے تاکہ کمیونٹی کے لوگ پاکستان میں اپنے عزیز و اقارب کو کال کرکے ووٹ ڈالنے کی تلقین کر سکیں۔ یہ سروس کمیونٹی کو مفت مہیا کی جائے گی۔
انھوں نے کہا کہ ان کی کوئی تنظیم نہیں ہے لیکن وہ اور ان کے چند دوست مل کر یہ کام کررہے ہیں تاکہ ’’ہمیں یہ احساس نا ہو کہ ہم نے ان انتہائی اہم الیکشنز میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔‘‘
پاکستانی امریکن کمیونٹی کی خواتین بھی اس سلسلے میں پیچھے نہیں ہیں۔ ملکہ چغتائی مقامی پاکستانی کمیونٹی کی متحرک خاتون ہیں جنھوں نے لوگوں میں سیاسی شعور ابھارنے کے لیے بہت کام کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا ہ وہ پچھلے ایک سال سے پاکستان ایمبیسی کے ساتھ رابطے میں تھیں اور ان کے مطابق یہی خیال تھا کہ اوور سیز پاکستانی ووٹ ڈال سکیں گے۔
’’اور اب پتا چلا کہ ہم ووٹ نہیں ڈال سکتے ، تو مایوسی بہت ہوئی ہے لیکن اب ہم نے یہاں موجود فیملیز کو اس بات پر اکسایا ہے وہ پاکستان میں لوگوں کو متحرک کریں۔ اس سلسلے میں کئی لوگ اپنے اپنے گھروں پر محفلیں منعقد کر رہے ہیں۔ جہاں ہم مل بیٹھ کر الیکشن کے رزلٹ دیکھیں گے۔ طرح طرح کے کھانے پکائیں گے، پاکستان میں اپنے دوستوں اور خاندان سے رابطے میں رہیں گے اور امید رکھیں گے کے وہی لوگ کامیاب ہوں جو ہمارے پاکستان کو آگے لے کر جائیں۔ ایسے لوگ جن پر ہم اعتبار کرسکیں۔ ‘‘
پاکستانی امریکن کمیونٹی کے مرد و خواتین کے ساتھ ساتھ طلبا بھی ان الیکشنز کو لے کر ناصرف پرجوش ہیں بلکہ پر امید بھی۔ اذکاء عثمانی ایک مقامی کالج کی طالبہ ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ انھیں یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ ان الیکشنز میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد دلچسپی لے رہی ہے جو نہایت خوش آئند ہے۔ نا صرف پاکستان میں موجود نوجوان ، بلکہ امریکہ میں موجود نوجوان بھی ان انتخابات کو نہایت اہمیت دے رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انھیں بھی افسوس ہے کہ وہ ووٹ نہیں دال سکتیں لیکن وہ پرامید ہیں کہ اگر ان جیسے نوجوان گھروں سے نکلیں اور ووٹ ڈالیں تو پاکستان میں بھی تبدیلی آسکتی ہے، انھوں ان الیکشنز کو مشرق وسطی میں آنے والی تبدیلی سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ نوجوان کچھ بھی کرسکتے ہیں اور اس بار وہ کچھ کرنے پر آمادہ نظر بھی آتے ہیں۔ اذکاء ان الیکشنز میں پاکستان میں نئے چہرے دیکھنے کی متمنی ہیں۔
سلمان نصیر بھی ایک مقامی کالج میں پڑھ رہے ہیں، سلمان اپنی ووٹ دینے کی عمر سے پہلے یہاں آگئے تھے اس لیے انھوں نے کبھی ووٹ نہیں ڈالا لیکن ان کا کہناتھا کہ وہ پاکستان میں الیکشن کی گہما گہمی کو یاد کرتے ہیں۔ گلی گلی میں جلسے جلوس، پوسٹرز اور جھنڈے۔ اگرچہ وہ یہاں ہیں لیکن ان کا دل پاکستان میں ہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کو ایک ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جو پاکستان کو لے کر آگے بڑھے چاہے وہ کسی بھی پارٹی کا ہو ۔
پاکستانی امریکن کمیونٹی میں بھی مختلف پارٹیوں کے حامی موجود ہیں جو اپنے اپنے لیڈر کی خوبیوں پر خوش اور خامیوں پر نالاں نظر آتے ہیں ، ان تمام باتوں میں قیاس آرائیوں اور اندازوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ البتہ نوجوانوں کی باتوں میں نئے پاکستان اور کسی نئے چہرے کو آزمانے کی پیاس نظر آتی ہے۔ تمام پاکستانیوں کی طرح پاکستانی امریکنز بھی 11 مئی کے انتخابات سے بہت سی امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ اور ان کا یہی کہنا ہے ’’ کاش ہم بھی ووٹ ڈال سکتے‘‘ ۔
باقی دنیا کی طرح امریکہ میں بسنے والے پاکستانی بھی ان انتخابات کا شدت سے انتظار کرتے رہے ہیں۔ ووٹ دالنے کی امیدیں تو کچھ دن قبل ہی دم توڑ گئیں تھیں جس کے بعد کئی تارکین وطن قافلہ در قافلہ پاکستان روانہ ہوئے تاکہ اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں۔ نیو یارک اور واشنگٹن ڈی سی سے مختلف سیاسی جماعتوں کے حامیوں نے لوگوں کو اس بات پر اکسایا کہ وہ پاکستان جا کر ووٹ ضرور ڈالیں۔ جو لوگ نہیں جا سکے انھوں نے یہاں رہ کر بھی ان الیکشنز میں اپنا حصہ ڈالنے کے مختلف طریقے ڈھونڈ لیے۔
اس ضمن میں واشنگٹن اور اس کے گرد و نواح میں بسنے والے پاکستانی بھی نہایت متحرک نظر آرہے ہیں۔ زیادہ تر پاکستانی اپنے طور پر پاکستان میں اپنے خاندان کے افراد اور دیگر لوگوں کو ٹیلیفون کرکے اور پیغامات کے ذریعے ووٹ ڈالنے کی تلقین کررہے ہیں جبکہ کچھ تنظیمیں بھی اس سلسلے میں لوگوں کی رہنمائی کر رہی ہیں۔
شہاب قرنی ریاست میریلینڈ میں قائم ایک تنظیم نیشنل ایسوسی ایشن آف پاکستانی امریکنز کے بورڈ ممبر ہیں۔ انھوں نے انتخابات میں ووٹ نہ ڈال سکنے پر مایوسی کا اظہار کیا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی امریکن اور اوور سیز پاکستانی ہر سال 14 بلین ڈالر کا زر مبادلہ پاکستان بھیجتے ہیں جو پاکستان کی معیشت میں ایک اہم مقام رکھتا ہے ۔ ان کی تنظیم نے اور مقامی پاکستانیوں نے یہ سوچ رکھا تھا کہ اگر یہاں پاکستانی امریکنز کو ووٹ ڈالنے کی اجازت مل جاتی ہے تو وہ اپنے اپنے علاقے میں بس سروس کا انتظام کریں گے تاکہ لوگوں کو پاکستان ایمبیسی لے جایا جا سکے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ووٹ ڈالنے پر آمادہ کیا جاسکے۔‘‘
لیکن انھیں افسوس ہے کہ اس سلسلے میں زیادہ کوششیں نہیں کی گیئں ، صدر پاکستان نے آرڈیننس تو پاس کر دیا لیکن اس پر عمل درآمد کے لیے وقت نہیں دیا ۔ یہ کام کچھ دن پہلے بھی کیا جا سکتا تھا، بہر حال اب ان کی کوشش ہے کہ وہ یہاں موجود پاکستانیوں کو حرکت میں لائیں کہ وہ اب پاکستان میں موجودان لوگوں کو ووٹ ڈالنے پر آمادہ کریں جو عام طور ووٹ نہیں ڈالتے۔ شہاب قرنی کہنا تھا یہ نہایت اہم ہے کیونکہ یہ الیکشن آنے والے برسوں میں پاکستان کی سمت متعین کرے گا۔
ایک مقامی سماجی کارکن آغا حسنین وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انھوں نے الیکشن کے دن ، یعنی جمعے کی رات کو ایک مقامی ریستوران میں ایک الیکشن نائٹ کا اہتمام کیا ہے جہاں تمام کمیونٹی کے ممبران اکٹھے ہوں گے اور مل کر الیکشن میں ہونے والی پیش رفت کو براہ راست دیکھیں گے۔ اس کے ساتھ انھوں نے وہاں ایک ٹیلیفون بینک اور سکائپ سٹیشن کا انتظام بھی کیا ہے تاکہ کمیونٹی کے لوگ پاکستان میں اپنے عزیز و اقارب کو کال کرکے ووٹ ڈالنے کی تلقین کر سکیں۔ یہ سروس کمیونٹی کو مفت مہیا کی جائے گی۔
انھوں نے کہا کہ ان کی کوئی تنظیم نہیں ہے لیکن وہ اور ان کے چند دوست مل کر یہ کام کررہے ہیں تاکہ ’’ہمیں یہ احساس نا ہو کہ ہم نے ان انتہائی اہم الیکشنز میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔‘‘
پاکستانی امریکن کمیونٹی کی خواتین بھی اس سلسلے میں پیچھے نہیں ہیں۔ ملکہ چغتائی مقامی پاکستانی کمیونٹی کی متحرک خاتون ہیں جنھوں نے لوگوں میں سیاسی شعور ابھارنے کے لیے بہت کام کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا ہ وہ پچھلے ایک سال سے پاکستان ایمبیسی کے ساتھ رابطے میں تھیں اور ان کے مطابق یہی خیال تھا کہ اوور سیز پاکستانی ووٹ ڈال سکیں گے۔
’’اور اب پتا چلا کہ ہم ووٹ نہیں ڈال سکتے ، تو مایوسی بہت ہوئی ہے لیکن اب ہم نے یہاں موجود فیملیز کو اس بات پر اکسایا ہے وہ پاکستان میں لوگوں کو متحرک کریں۔ اس سلسلے میں کئی لوگ اپنے اپنے گھروں پر محفلیں منعقد کر رہے ہیں۔ جہاں ہم مل بیٹھ کر الیکشن کے رزلٹ دیکھیں گے۔ طرح طرح کے کھانے پکائیں گے، پاکستان میں اپنے دوستوں اور خاندان سے رابطے میں رہیں گے اور امید رکھیں گے کے وہی لوگ کامیاب ہوں جو ہمارے پاکستان کو آگے لے کر جائیں۔ ایسے لوگ جن پر ہم اعتبار کرسکیں۔ ‘‘
پاکستانی امریکن کمیونٹی کے مرد و خواتین کے ساتھ ساتھ طلبا بھی ان الیکشنز کو لے کر ناصرف پرجوش ہیں بلکہ پر امید بھی۔ اذکاء عثمانی ایک مقامی کالج کی طالبہ ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ انھیں یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ ان الیکشنز میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد دلچسپی لے رہی ہے جو نہایت خوش آئند ہے۔ نا صرف پاکستان میں موجود نوجوان ، بلکہ امریکہ میں موجود نوجوان بھی ان انتخابات کو نہایت اہمیت دے رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انھیں بھی افسوس ہے کہ وہ ووٹ نہیں دال سکتیں لیکن وہ پرامید ہیں کہ اگر ان جیسے نوجوان گھروں سے نکلیں اور ووٹ ڈالیں تو پاکستان میں بھی تبدیلی آسکتی ہے، انھوں ان الیکشنز کو مشرق وسطی میں آنے والی تبدیلی سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ نوجوان کچھ بھی کرسکتے ہیں اور اس بار وہ کچھ کرنے پر آمادہ نظر بھی آتے ہیں۔ اذکاء ان الیکشنز میں پاکستان میں نئے چہرے دیکھنے کی متمنی ہیں۔
سلمان نصیر بھی ایک مقامی کالج میں پڑھ رہے ہیں، سلمان اپنی ووٹ دینے کی عمر سے پہلے یہاں آگئے تھے اس لیے انھوں نے کبھی ووٹ نہیں ڈالا لیکن ان کا کہناتھا کہ وہ پاکستان میں الیکشن کی گہما گہمی کو یاد کرتے ہیں۔ گلی گلی میں جلسے جلوس، پوسٹرز اور جھنڈے۔ اگرچہ وہ یہاں ہیں لیکن ان کا دل پاکستان میں ہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کو ایک ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جو پاکستان کو لے کر آگے بڑھے چاہے وہ کسی بھی پارٹی کا ہو ۔
پاکستانی امریکن کمیونٹی میں بھی مختلف پارٹیوں کے حامی موجود ہیں جو اپنے اپنے لیڈر کی خوبیوں پر خوش اور خامیوں پر نالاں نظر آتے ہیں ، ان تمام باتوں میں قیاس آرائیوں اور اندازوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ البتہ نوجوانوں کی باتوں میں نئے پاکستان اور کسی نئے چہرے کو آزمانے کی پیاس نظر آتی ہے۔ تمام پاکستانیوں کی طرح پاکستانی امریکنز بھی 11 مئی کے انتخابات سے بہت سی امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ اور ان کا یہی کہنا ہے ’’ کاش ہم بھی ووٹ ڈال سکتے‘‘ ۔