جمعرات کو لیبیا کے ساحل کے نزدیک تارکینِ وطن کی ڈوبنے والی کشتی میں ایک پاکستانی خاندان بھی سوار تھا جس کے دو افراد اس حادثے کے نتیجے میں سمندر کی موجوں نذر ہوگئے ہیں۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ لیبیا کی مغربی بندرگاہ زوارہ کے قریب ڈوبنے والی کشتی میں 350 سے 400 افراد سوار تھے جن میں سے لگ بھگ 200 افراد کو زندہ بچایا جاسکا ہے۔
حکام نے سمندر سے اب تک 80 لاشیں برآمد کی ہیں جب کہ اب بھی درجنوں افراد لاپتا ہیں جنہیں تلاش کیا جارہا ہے۔
زندہ بچ جانے والوں میں 17 سالہ پاکستانی لڑکا شفاذ حمزہ بھی شامل ہے جو اپنے خاندان کے چھ افراد کے ہمراہ اِس بدقسمت کشتی میں سوار تھا۔
یہ خاندان بھی دیگر مسافروں کی طرح بہتر مستقبل کی تلاش میں لیبیا سے یورپ جارہا تھا جہاں انہیں امید تھی کہ وہ اپنی زندگی نئے سرے سے شروع کرسکیں گے۔ لیکن انہیں نہیں معلوم تھا کہ یہ سفر خاندان کے دو افراد کی زندگیوں کے چراغ ہی گل کردے گا۔
زوارہ کے ایک پولیس اسٹیشن میں موجود شفاذ نے خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ حادثے میں اس کی والدہ اور چھوٹی بہن ہلاک ہوئے ہیں۔
شفاذ کے مطابق وہ اپنے والدین اور 27 اور 11 سال کی دو بہنوں اور 16 سال کے بھائی کے ہمراہ کشتی پر سوار ہوا تھا جس پر موجود بیشتر افراد افریقی یا عرب تھے۔
شفاذ نے بتایا کہ کشتی رات ڈیڑھ بجے ساحل سے روانہ ہوئی تھی لیکن ڈیڑھ گھنٹے کے سفر کے بعد کشتی نے لرزنا شروع کردیا اور اس میں پانی بھرنے لگا۔
اس کےبقول کشتی میں پانی اتنی تیزی سے بھر رہا تھا کہ وہ کچھ ہی دیر میں ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر گئی اور تمام لوگ کھلے سمندر میں غوطےلگانے لگے۔
"میں نے اور میری والدہ نے لکڑی کے ایک تختے کا سہارا لے لیا۔ اس دوران میں نے دیکھا کہ میرا بھائی اور چھوٹی بہن بھی ایک دوسرے تختے کے سہارے تیرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میرے بھائی نے لائف جیکٹ پہنی ہوئی تھی جو سمندر میں تیرتے ایک اور شخص نے اس سے چھیننے کی کوشش کی۔ لیکن میرے بھائی کی مزاحمت اور ہاتھ پیر چلانے پر وہ شخص واپس چلا گیا۔"
"تھوڑی دیر بعد میں نے دیکھا کہ ایک ڈوبتا ہوا شخص میری چھوٹی بہن پر سوار ہونے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ ڈوبنے سے بچ سکے۔ اس نے میری بہن کو اتنی سختی سے پکڑکے کھینچا کہ وہ خود ڈوبنے لگی۔ آخری بار جب میں نے اسے دیکھا تو وہ پانی کے اندر تھی اور وہ شخص میری ننھی بہن پر سوار تھا۔"
شفاذ نے بتایا کہ وہ اور اس کی والدہ نو گھنٹے تک لکڑی کے ایک تختے کے سہارے کھلے سمندر میں تیرتے رہے۔
"میری امی کی ہمت جواب دے رہی تھی لیکن میں انہیں مسلسل تسلیاں دیے جارہا تھا کہ وہ ہمت نہ ہاریں ۔ میں انہیں کہے جارہا تھا کہ جلد مدد آجائے گی اور سب ٹھیک ہوجائے گا۔ لیکن امدادی ٹیم کے پہنچنے سے آدھا گھنٹہ قبل میری امی میرا ساتھ چھوڑ گئیں۔"
"انہوں نے میری آنکھوں کے سامنے دم توڑ دیا اور میں کچھ نہیں کرسکا۔ میں تختے کے سہارے ان کی لاش لیے تیرتا رہا۔ جب ایک امدادی اہلکار مجھ تک پہنچا تو میں نے اس سے درخواست کی کہ وہ مجھے اپنی امی کی لاش بھی ساتھ لےجانے دے لیکن اس نے مجھے منع کردیا۔"
ساحل پر پہنچنے کے بعد شفاذ اور اس کےبھائی کو اسپتال منتقل کیا گیا جہاں انہیں پتا چلا کہ ان کے والد اور بڑی بہن بھی حادثے میں زندہ بچ گئےہیں اور اسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔
حادثے میں زندہ بچ جانے والے ایک شخص نے 'اے ایف پی' کو بتایا کہ اس نے اور اس کے دو دوستوں نے کشتی والے کو یورپ پہنچانے کے عوض 1600 ڈالر فی کس ادا کیے تھے۔
اس نے بتایا کہ کشتی والے نے اسے اٹلی پہنچانے کا وعدہ کیا تھا جہاں پہنچنے کے بعد اسے امید تھی کہ قسمت اس پر مہربان ہوگی اور وہ بہتر زندگی گزار سکے گا۔
اٹلی کا جزیرہ لمپا ڈوسا لیبیا سے صرف 300 کلومیٹر دور ہے اور اس نسبتاً کم فاصلے کی وجہ سے ہر ہفتے سیکڑوں افراد یورپ پہنچنے کی امید پر خود کو بحیرۂ روم کی بے رحم موجوں کے سپرد کردیتے ہیں۔
لیبیا اور مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ملکوں کے خراب حالات سے پریشان ہو کر فرار ہونے والے تارکینِ وطن عموماً ایسے اسمگلروں کے ہتھے چڑھ جاتےہیں جو انہیں یورپ پہنچانے کا جھانسا دے کر موت کے حوالے کردیتے ہیں۔
یہ انسانی اسمگلر بھاری رقم وصول کرکے ان تارکینِ وطن کو بحیرہ روم کے راستے یورپ پہنچانے کے سنہری خواب دکھاتے ہیں لیکن ان خوابوں کی تعبیر اکثر موت یا معذوری کی صورت میں سامنے آتی ہے۔
خستہ حالی اور گنجائش سے کئی گنا زیادہ مسافروں کے سوار ہونے کے باعث کئی کشتیاں سفر کے دوران ہی سمندر کے بے رحم موجوں کی نذر ہوجاتی ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق رواں سال اب تک اس نوعیت کے حادثوں میں ڈھائی ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکےہیں۔
بدھ کو بھی زوارہ کے نزدیک تارکینِ وطن سے لدی ایک چھوٹی کشتی ڈوب گئی تھی جس پر مقامی حکام کے مطابق 50 سے 60 افراد سوار تھے۔