پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ حقیقت پسندی اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے افغانستان کو تنہا نہ چھوڑا جائے۔
بدھ کو خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کو دیے گئے انٹرویو میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان عالمی برادری کو ایسا روڈ میپ تجویز کر رہا ہے جس کے نتیجے میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا جا سکتا ہے۔
شاہ محمود قریشی نے یہ گفتگو ایسے وقت میں کی ہے جب امریکہ سمیت عالمی برادری طالبان پر زور دے رہے ہیں کہ وہ افغانستان میں جامع حکومت کے قیام کے لیے کام کریں۔
شاہ محمود قریشی نے یہ واضح کیا کہ اگر طالبان بین الاقوامی برداری کی توقعات پر پورے اترتے ہیں تو ان کے لیے بھی معاملات آسان ہو سکتے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی برداری کو بھی یہ سمجھنا ہو گا کہ اس کے علاوہ کیا متبادل ہے اور کیا آپشنز ہیں؟ ان کے بقول حقیقت یہی ہے اور ہم اس سے منہ نہیں موڑ سکتے۔
وزیر خارجہ قریشی نے کہا کہ پاکستان بین الاقوامی برداری کی طرح ایک پر امن اور مستحکم افغانستان کا خواہاں ہے جس میں دہشت گرد عناصر کو اپنے قدم جمانے کی کوئی جگہ نہ ملے اور طالبان کو اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ افغان سر زمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہو۔
وزیرِ خارجہ قریشی نے کہا کہ بین الاقوامی برداری کی پالیسی حقیقت پسندی پر مبنی ہونی چاہیے۔ ان کے بقول طالبان کے ساتھ بات چیت کی کوئی نئی راہ تلاش کرنا ہو گی کیوں کہ جس طریقے سے اب معاملات حل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے وہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو رہے۔
افغانستان کے منجمد فنڈز بحال کرنے کی اپیل
وزیرِ خارجہ قریشی نے کہا کہ طالبان قیادت سے ایک ایسی جامع حکومت کی توقع ہونی چاہیے جس میں انسانی حقوق بشمول خواتین کو تحفظ حاصل ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ طالبان حکومت کو کئی دہائیوں سے جاری جنگ کے اثرات سے نمٹنے کے لیے افغانستان کی تعمیرِ نو کے ساتھ ساتھ ترقیاتی اور اقتصادی امداد کی پیش کی جا سکتی ہے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ قریشی نے امریکہ، عالمی مالیاتی فنڈ اور دیگر ممالک پر زور دیا کہ افغانستان کے منجمد اثاثوں کو فوری طور پر بحال ہونا چاہیے تاکہ وہاں حالات معمول پر آ سکیں۔
وزیرِ خارجہ نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ طالبان کے ساتھ رابطے شروع کرنے کے لیے اپنا تعمیری کردار ادا کرنے پر تیار ہیں جو ان کے بقول امن و استحکام کے لیے مفید ہوں گے۔
'پاکستان کچھ بھی کر لے اسے ناکافی سمجھا جاتا ہے'
دوسری جانب منگل کو پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر نیویارک میں نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ امریکہ نے طالبان کے ساتھ معاہدے کرانے اور افغانستان سے انخلا کو سہل بنانے کے لیے اسلام آباد کے تعاون کو سراہنے سے گریز کیا۔
پاکستان کے وزیر خارجہ قریشی سے جب پوچھا گیا کہ امریکہ اب بھی پاکستان پر ڈو مور کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے تو انہوں نے کہا کہ پاکستان جو کچھ بھی کر لے وہ کافی نہیں سمجھا جاتا۔
اُنہوں نے کہا کہ پاکستان کی حمایت کو تسلیم کرنے کے بجائے پاکستان پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں جب کہ ان کے بقول جب امریکہ طالبان سے مذاکرات کا خواہاں تھا تو پاکستان نے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے امریکہ کے ساتھ تعاون کیا تھا۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ پاکستان نے امریکی شہریوں کے افغانستان سے محفوط انخلا میں بھی مدد کی۔ اس کے علاوہ پاکستان اور کیا کر سکتا تھا۔
پاکستانی وزیرِ خارجہ نے یہ بات ایک ایسے وقت کہی ہے جب چند روز قبل امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے امریکہ کے ایوانِ نمائندگان کی خارجہ امور کی کمیٹی میں افغانستان سے متعلق ہونے والی سماعت کے دوران کہا تھا کہ افغانستان کے معاملے پر امریکہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کا جائزہ لے گا۔
تجزیہ کار مونس احمر کہتے ہیں کہ پاکستان اور امریکہ کی تعلقات کی تاریخ رہی ہے اور اس وقت تعلقات میں سرد مہری کوئی نئی بات نہیں ہے۔
'پاک، امریکہ تعلقات میں سرد مہری نئی بات نہیں'
ان کے بقول جب پاکستان اور امریکہ کے مفادات میں مطابقت رہی ان کے تعلقات بھی بہتر تھے لیکن جب ان تعلقات میں ٹکراؤ پیدا ہوا تو تعلقات کی نوعیت بھی بدل گئی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مونس احمر کا کہنا تھا کہ پاکستان کو بھی اپنی خارجہ پالیسی کی ترجیحات کا تعین اپنے مفادات کو مدِنظر رکھ کر کرنا ہو گا۔ لیکن ان کے بقول یہ اسی صورت ہو گا جب پاکستان اقتصادی طور پر مضبوط ہو گا۔
مونس احمر کا کہنا تھا کہ اگرچہ امریکہ نے گزشتہ پانچ چھ برس سے پاکستان کی زیادہ تر امداد ختم کر دی ہے لیکن اس کے باوجود بھی امریکہ پاکستان سے اپنے مفادات کے لیے توقعات کا اظہار کرتا رہتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اقتصادی طور پر مغرب پر انحصار کرتا ہے اس لیے پاکستان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ مغرب سے تعلقات اچھے رکھے۔
'پاک، امریکہ اسٹرٹیجک تعلقات اب مشکل نظر آتے ہیں'
مونس احمر کا کہنا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان ماضی جیسے اسٹرٹیجک تعلقات کا دوبارہ استوار ہونا فی الحال ممکن نہیں ہے۔ لیکن پاکستان اور امریکہ کے درمیان اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے کے امکانات موجود ہیں۔
مونس احمر کا کہنا ہے کہ پاکستان اور چین کے مسلسل بڑھتی ہوئی قربت بھی پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پر اثر انداز ہو سکتی ہے جب کہ امریکہ خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرو سوخ کو کم کرنے کے کوشاں ہے۔