عدالت عظمیٰ کے ایک سینئر جج نے کہا ہے کہ پاکستانی معاشرے کو اب یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ نظامِ عدل میں فیصلہ شہادتوں کی بنیاد پر ہوتا ہے اور سچ کے بغیر نظامِ عدل برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے یہ بات منگل کو قتل کے الزام میں عمر قید کی سزا پانے والے تین افراد کی اپیل کی سماعت کا فیصلہ سناتے ہوئے کہی۔
تقریباً آٹھ سال قبل راولپنڈی میں اختر جاوید نامی ایک شخص کو قتل کرنے کے الزام میں اس کی بیوہ، بھائی اور برادر نسبتی کو ماتحت عدالت نے سزائے موت سنائی تھی جسے بعد میں ہائی کورٹ نے عمر قید میں تبدیل کر دیا تھا۔
اس سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواست کی سماعت مکمل کرنے کے بعد منگل کو فیصلہ سناتے ہوئے تین رکنی بینچ نے قرار دیا کہ استغاثہ الزام ثابت کرنے میں ناکام رہا لہذا یہ سزائیں ختم کی جاتی ہیں اور ملزمان کو باعزت بری کیا جاتا ہے۔
بینچ میں شامل جسٹس آصف سعید کھوسہ کا اس موقع پر کہنا تھا کہ بدقسمتی سے پنجاب میں یہ روایت بن چکی ہے کہ اگر جرم ثابت ہو جائے تو سزائے موت اور اگر ثابت نہ ہو تو عمر قید کی سزا دے دی جاتی ہے۔
ان کے بقول اب وقت آ گیا ہے کہ دوسروں پر جھوٹا الزام لگانے والوں کو بھی عمر قید کی سزا سنائی جائے۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ جب ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے عمر قید یا سزائے موت کی اپیل کی سماعت کرتے ہوئے سزا کو کالعدم قرار دیا ہو۔
اس سے قبل بھی متعدد بار ایسے فیصلے سامنے آ چکے ہیں جس کی بنا پر قانونی ماہرین اور انسانی حقوق کی تنظیمیں یہ کہتی رہی ہیں کہ پاکستان میں استغاثہ اور نظامِ عدل میں اصلاحات ناگزیر ہیں۔
انسانی حقوق کے ایک سرگرم کارکن بیرسٹر مرزا شہزاد اکبر وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہتے ہیں کہ مقدمے کے اندراج کے وقت فریقین مبینہ طور پر اثر و رسوخ یا پھر رشوت دے کر مخالفین پر ایسی دفعات بھی لگوا دیتے ہیں جن سے مقدمے کی کارروائی پر اثر پڑتا ہے اور ملزمان کے لیے سزا سے بچنا مشکل ہوتا ہے۔
"احتساب بڑی آسانی سے ہو سکتا ہے۔ سیشن ججز جو ضلعے کی سطح پر انچارج ہوتے ہیں، وہ اس کی نگرانی کریں کہ کہاں پر زیادتی کی جا رہی ہے لوگوں کے ساتھ، اس کو روکیں۔ اس سے بھی کافی بہتری آئے گی۔"
ان کا کہنا تھا کہ ایسے فیصلے یہ نشاندہی کرتے ہیں کہ نظامِ عدل میں پوری طرح اصلاحات کی ضرورت ہے۔
ایک روز قبل بھی عدالت عظمیٰ کے ایک جج دوست محمد خان نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران ماتحت عدالتوں کو تنبیہ کی تھی کہ وہ عام جرائم کے مقدمات میں دہشت گردی کی دفعات شامل کرنے سے گریز کریں۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال عدالتِ عظمیٰ کی طرف سے کم از کم دو ایسے ملزمان کی سزائے موت ختم کرتے ہوئے بری کرنے کا حکم دیا گیا جو 15 سال سے جیل میں قید تھے جب کہ ایسا واقعہ بھی سامنے آ چکا ہے کہ جس میں سپریم کورٹ نے جب دو ملزمان کی سزائے موت ختم کی تو انھیں ایک سال قبل ہی پھانسی دی جا چکی تھی۔
سپریم کورٹ نے اس معاملےکا نوٹس لے کر حکام سے جواب بھی طلب کیا تھا۔