پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی نے جنگ بندی لائن پر فائرنگ اور گولہ باری سے ہلاک ہونے والوں کے ورثا اور زخمیوں کے لیے معاوضوں میں اضافے کے قانون کی منظوری دے دی ہے۔
جمعرات کے روز ہونے والے اجلاس میں جنگ بندی لکیر کے قریبی علاقوں کے رہائشیوں کو تعلیم، صحت، پانی اور ذرائع مواصلات سمیت دیگر سہولتوں کی فراہمی کے لیے خصوصی ایل او سی ریلیف پیکیج کے قانون کی بھی منظوری دی گئی۔
اس مقصد کے لیے سیز فائر لائن ریلیف فنڈ بھی قائم کیا جائے گا۔
قانون سازوں نے لائن آف کنٹرول پر فائرنگ متاثرہ افراد کی امداد میں اضافے کے لیے 1992 سیز فائر ریلیف ایکٹ میں ترامیم کی بھی منظوری دی، جس کے تحت ایل او سی پر فائرنگ اور گولہ باری میں ہلاک ہونے والوں کے ورثا کے معاوضے کی رقم تین لاکھ روپے سے بڑھا کر دس لاکھ، مستقل معذوری کا معاوضہ اڑھائی لاکھ سے بڑھا کر آٹھ لاکھ اور شدید زخمی کے لیے یہ رقم ایک لاکھ سے بڑھا کر تین لاکھ روپے کر دی گئی ہے۔
پاکستانی کنٹرول کے کشمیر کے وزیر برائے بہبود آبادی ڈاکٹر مصطفیٰ بشیر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انسانی جانوں کے نقصان کے علاوہ مال مویشی اور جائیداد کے نقصان کی امدادی رقم میں بھی کئی گنا اضافہ کیا گیا ہے۔
’بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیش نظر بکری اور بھیڑ کا معاوضہ تین ہزار سے بڑھا کر پندرہ ہزار، گائے اور بھینس کا معاوضہ 20 ہزار سے بڑھا کر 50 ہزار روپے کر دیا گیا ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کا مقصد سرحدی علاقوں میں رہنے والوں کی اپنے گھروں سے دوسرے علاقوں میں منتقلی روکنا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ 5 لاکھ سے زائد آبادی جنگ بندی لائن کے قریبی علاقوں میں رہتی ہے ۔جو گاہے بگاہے سرحد پار کی گولہ باری کی زد میں آ جاتی ہے۔
پاکستان کشمیر کو اپنی شہ رگ اور بھارت اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار قرار دیتا ہے۔ جب کہ اقوام متحدہ نے عشروں قبل اپنی قرارداوں میں کشمیریوں کو یہ حق دے دیا تھا کہ وہ ووٹ کے ذریعے پاکستان یا بھارت میں شمولیت کا فیصلہ کر لیں۔ تاہم بھارت رائے شماری پر تیار نہیں ہے۔