پیر کو پیمرا یعنی پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی نے ایک انتباہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ کچھ ٹی وی چیلنز نے ایسے تبصرے، تجزیے اور ٹکرز نشر کیے جس سے ناصرف سنسنی پھیلتی ہے بلکہ فرقہ وارانہ عدم برداشت اور امن و امان میں خلل پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔
انتباہ میں کہا گیا کہ اس وقت جبکہ پوری قوم اور فوجی جوان نیشنل ایکشن پلان کے تحت آپریشن ضرب عضب میں اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کر رہے ہیں کسی بھی قسم کی غیر ذمہ دارانہ اور غیر پیشہ وارانہ صحافت نیشنل ایکشن پلان کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔
انتباہ میں یہ بھی کہا گیا کہ ایسے تمام نیوز و کرنٹ افیئرز پروگرامز، ٹاک شوز، احتجاج، تبصرے یا ٹکر نشر کرنے سے اجتناب کیا جائے جو ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کو پھیلانے کا باعث بنیں یا کسی حکومتی عہدیدار یا ادارے کے خلاف لوگوں کو نفرت یا فساد پر ابھاریں۔
اگرچہ یہ واضح نہیں کہ پاکستان کے ٹی وی چینلز نے حکومت کی ہدایت پر یا سیلف سینسر شپ کے تحت یعنی خود ہی اس خبر کو بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کیا مگر ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا میں غیر معمولی طور پر خاموشی چھائی رہی جبکہ بیشتر اخبارات نے بھی اس کو شہہ سرخی کی بجائے تین کالمی خبر کے طور پر چلایا۔
2011 میں گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو قتل کرنے کے بعد ممتاز قادری کو جب عدالت میں پیش کیا گیا تو ملک کے مختلف ٹی وی چینلز پر اس خبر کی خاصی تشہیر کی گئی۔
کچھ وکلا اور مذہبی حلقوں نے قادری کے حق میں نعرے بازی کی جس سے ایسا تاثر ابھرا کہ اس نے قتل کرکے کوئی اچھا کام کیا ہے۔
تاہم ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد نہ تو بڑے نجی ٹی وی چینلز نے اس خبر کو تفصیلی طور پر پیش کیا اور نہ ہی اس کے خلاف ہونے والے مظاہروں کی لمحہ بہ لمحہ خبریں پیش کیں جو بظاہر ایک غیر معمولی بات ہے۔
ساؤتھ ایشیا فری میڈیا ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل امتیاز عالم نے کہا کہ ممتاز قادری کی پھانسی کے خلاف احتجاج کی کوریج سے اشتعال بڑھ سکتا تھا جس سے امن و امان اور لوگوں کی زندگی کو خطرہ تھا۔
’’عام طور سے میڈیا احتیاط کرتا ہے کہ فرقہ وارانہ خبریں اور پر تشدد قسم کے واقعات میں ملوث لوگوں کی خبریں نہ دی جائیں۔ یہ عمومی طور پر اچھا رجحان ہے میڈیا میں جو انہوں اس بات کو انتی اہمیت نہیں دی۔‘‘
انہوں نے کہا کہ عام طور پر میڈیا پیمرا کی طرف سے جاری کی گئی ہدایات کو نظر انداز کر دیتا ہے مگر اس بار اس نے فہم و فراست کا مظاہرہ کیا ہے۔
معروف صحافی محمد ضیاالدین نے کہا کہ صحافی ہونے کی حیثیت سے وہ سمجھتے ہیں کہ خبروں کو روکنا نہیں چاہیئے۔
’’لیکن ساتھ ساتھ میں یہ بھی کہوں گا کہ شدت پسند اور مذہبی طور پر قدامت پسند لوگ اس جمہوری اصول کو استعمال کرتے ہیں کہ اپنی تشہیر کے لیے۔ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو پاکستانی میڈیا نے اچھا کیا کہ اس کی خبریں سنسنی خیز انداز میں نہیں دی ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ میڈیا نے اس سلسلے میں بالغ نظری کا ثبوت دیا ہے۔