جب پاکستان کے کوک اسٹوڈیو کی موسیقی بھارت میں داخل ہوئی تو اس نے وہاں موسیقی کے شائقین کو مسحور کر دیا۔
بھارت میں موسیقی کے معروف تجزیہ کار ڈاکٹر ونے وکرم سنگھ نے وائس آف امریکہ کی اُردو سروس سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستانی کوک اسٹوڈیو کی ناقابل یقین حد تک شاندار موسیقی اور زبردست گلوکاروں نے بھارتی شائقین کو اپنا گرویدہ بنا لیا ہے۔ ڈاکٹر ونے کے مطابق کوک اسٹوڈیو کی موسیقی ایک نعمت ہے کیونکہ یہ اعصاب کو سکون بخشتی ہے اور سننے والے کو وجد کی کیفیت میں مبتلا کر دیتی ہے۔ اُن کے مطابق علی حمزہ، شجاع حیدر اور سجاد علی جیسے موسیقاروں کی تخلیقات بھارت میں انتہائی مقبول ہیں اور عمیر جسوال، علی سیٹھی، نبیل شوکت علی، مومنہ مستحسن اور عائمہ بیگ سمیت متعدد پاکستانی نوجوان گلوکاروں نے بھارتی شائقین پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔
ڈاکٹر ونے کہتے ہیں کہ کوک اسٹویو کا دسواں ایڈیشن بھی بھارت میں بہت مقبول ہوا ہے۔ خاص طور پر ’رنجش ہی شہی‘، ’بول‘، ’لٹھے دی چادر‘، ’دم مست قلندر‘، ’جولی‘ اور ’اُس راہ پر‘ جیسے نغمے بہت پسند کئے گئے ہیں۔
ڈاکٹر ونے کا کہنا ہے کہ کوک اسٹوڈیو کا ہر آنے والا ایڈیشن پہلے ایڈشنز کے مقابلے میں مزید بہتر ہوتا جا رہا ہے اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ موسیقی کی طاقت کس قدر زیادہ ہے جو سرحدوں سے ماورا ہوتی ہے۔
پاکستان میں کوک اسٹوڈیو کی ابتدا 2008 میں ہوئی اور اُس وقت سے یہ اب تک ٹیلی ویژن پر پیش کیا جانے والے سب سے طویل عرصے کا شو ہے جس میں پاکستان کے معروف گلوکاروں کے ساتھ نئے ابھرنے والے گلوکاروں کو بھی موقع دیا گیا ہے۔ اس میں روایتی، کلاسیکل، لوک، صوفی، قوالی، غزل، بھنگڑا، ہپ ہاپ، راک اور پاپ سمیت بہت سی مختلف اصناف کی موسیقی پیش کی گئی ہے۔
برصغیر میں موسیقی کی تاریخ کا جائزہ لیں تو ہندوستان کی تقسیم سے قبل خواتین گلوکاروں میں نورجہاں کا طوطی بول رہا تھا۔ تقسیم کے بعد دو مزید گلوکارائیں اس دوڑ میں شامل ہو گئیں۔ اُن کے نام شمشاد بیگم اور گیتا دت تھے۔
یہ وہ وقت تھا جب فلموں میں پلے بیک سنگنگ میں خواتین کے گیتوں کو بھی اہمیت دی جانے لگی اور وہ مرد گلوکاروں کے ہم پلہ قرار پائیں۔ پھر جب دو بہنوں لتا منگیشکر اور آشا بھوسلے نے اپنی کومل آوازوں کے ساتھ فلموں کی پس پردہ موسیقی کے میدان میں قدم رکھا تو فلمی موسیقی کی جہت ہی بدل گئی۔ فلمی موسیقی کے باہر اسی دور میں ٹھمری اور غزل کی گائیکی نے بھی موسیقی کے شائقین کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ اُس وقت بیگم اختر نے موسیقی کی اس صنف کا الم بلند کئے رکھا۔
پاکستان میں اس انداز کی غیر فلمی موسیقی کی روایت شاندار طریقے سے جاری رہی کیونکہ پاکستان کی فلمی صنعت اُس انداز میں کبھی اُٹھ ہی نہیں پائی جس طرح ہندوستان میں یہ صنعت تیزی سے ترقی کرتی رہی۔ اس طرح پاکستان میں فلمی موسیقی دیگر اصنافِ موسیقی پر حاوی نہ ہو پائی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بھارت میں احمد رشدی، مالا ، مسعود رانا اور ناہید اختر جیسے فلمی گلوکاروں کو کوئی نہیں جانتا۔ تاہم اقبال بانو، مہدی حسن، فریدہ خانم اور غلام علی جیسے غیر فلمی گلوکاروں کو بھارت میں زبردست پزیرائی حاصل ہوئی۔ پھر 1980 کی دہائی میں نازیہ حسن کے گانے ’آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے‘ نے اس قدر مقبولیت حاصل کی کہ اسے بھارتی فلم ’قربانی‘ کیلئے دوبارہ گوایا گیا۔ بعد میں 1990 کی دہائی اور اُس کے بعد جنید جمشید، علی حیدر، جنون، سٹرنگز، ابرارلحق، عاطف اسلم، علی ظفر اور دیگر گلوکاروں نے بھارت میں موسیقی کے شائقین کو گرویدہ بنایا۔ وہاں لوگ کبھی کبھار ریشماں، سلمیٰ آغا اور غلام علی کو بھی سن لیتے تھے جن کے کچھ گانے بھارتی فلموں میں شامل کئے گئے۔
بھارت میں خاص طور پر 1990 کی دہائی سے موسیقی کی تمام اصناف کے مقابلے فلمی موسیقی بھرپور انداز میں چھائی دکھائی دیتی ہے۔ کیسٹ کے آنے سے بھارت میں جگجیت سنگھ کی غزلیں مقبولیت حاصل کرنے لگیں۔ اسی وقت مہدی حسن اور غلام علی کی غزلیں بھی بھارت میں مقبولیت کی منزلیں طے کرنے لگیں اور بھارتی شائقین کو یہ احساس ہونے لگا کہ ہمسایہ ملک پاکستان غزل کی گائیکی میں بھارت سے کہیں آگے ہے۔
1990 اور پھر 2000 کی دہائی کے دوران بھارت میں بھی پاپ اور ہپ ہاپ موسیقی کے تجربات کئے گئے اور علیشاہ چنوئے اور سنیتا راؤ جیسی گلورائیں میدان میں آئیں۔ لیکن یہ تجربہ زیادہ دیر تک جاری نہ رہ سکا اور یہ فلمی موسیقی کے طوفان تلے دب کر رہ گیا۔
لہذا جب کوک اسٹوڈیو پاکستان بھارتی موسیقی کے حلقوں میں داخل ہوا تو شائقین ششدر رہ گئے۔ اس پروگرام کے ذریعے پاکستان کے نوجوان گلوکاروں کی پختہ، روح تک اترنے والی آوازوں نے سننے والوں کو سرشار کر دیا۔ کوک اسٹوڈیو کی موسیقی میں جدید ترین کی بورڈز، الیکٹرک گٹاروں زور دار ڈرمز کے ساتھ ساتھ ڈھولک اور چمٹا بھی استعمال کیا گیا۔ ڈاکٹر ونے بتاتے ہیں کہ کوک اسٹوڈیو پاکستان نے بھارتی شائقین کو روح پرور موسیقی کی نئی جہتوں سے روشناس کرایا ہے۔