پاکستانی ٹیلیویژن اسکرینوں پر روزانہ شام کو سیاست پر مبنی مزاحیہ پروگرام نشر ہوتے ہیں۔ حسب حال، خبرناک، خبردار، خبرزار اور ایسے ہی بہت سے پروگرام تقریباً ہر ٹیلی وژن چینل سے نشر کئے جاتے ہیں جن میں سہیل احمد، امانت چن، امان اللہ، افتخار ٹھاکر، ناصر چنیوٹی، آغا ماجد اور ہنی البیلا جسے سٹیج اور ٹی وی کے مشہور مزاحیہ فنکار نظر آتے ہیں۔
ان ٹی وی پروگراموں پر وقتاً فوقتاً نسل پرستی، جسمانی عیوب اور جنسی شناخت پر مبنی جملوں کے ذریعے مزاح نگاری کرنے کا الزام لگتا رہتا ہے۔
ایسا کیوں ہے؟ یہ سوال جب ہم نے صحافی و تجزیہ نگار رضا رومی سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ ہمارے تمدن میں بدقسمتی سے مزاح کا معیار نسل پرستی، جنسی شناخت اور جسمانی عیوب سے جڑا ہے، ہمارے یہاں کالی رنگت والوں کا مذاق اڑانا ایک عام سی بات ہے، اور اگر کوئی موٹا یا چھوٹا یا لنگڑا ہو تو وہ فی الفور تضحیک کا نشانہ بن جاتا ہے۔
انہوں نے ٹی وی چینلز پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ بھانڈ پن ٹی وی پر اب ایک ’کموڈٹی‘ بن چکا ہے اور ہر بڑا چینل اس تگ و دو میں مصروف ہے کہ کیسے بھانڈوں والے مذاق سرعت سے بیچے جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ہم معاشرے میں پائے جانے والے نا مناسب رویوں کی تصدیق و ترویج کرتے ہیں۔
جیو ٹی وی کے پروگرام ’خبرناک‘ سے تعلق رکھنے والے مزاح نگار علی میر نے جہاں یہ تسلیم کیا کہ ماضی میں ایسی غلطیاں ہوئی ہیں وہیں ان کا کہنا تھا کہ اب ان کے چینل میں ان باتوں پر مسلسل توجہ دی جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان پر کامیڈی کا شدید دباؤ ہوتا ہے۔ بات بات پر کامیڈی کرنی ہوتی ہے، ریٹنگ بھی ایک وجہ ہے۔ دائیں بائیں دیگر چینل بھی ایسے پروگرام کر رہے ہوتے ہیں۔ ’’بعض اوقات اتنی ناانصافی ہو جاتی ہے۔ کیونکہ ’ایتھکس‘ کا پتہ نہیں ہوتا۔ میڈیا پر آنا بہت ذمہ داری کا کام ہے۔‘‘
’حسب حال‘ کے میزبان جنید سلیم کا کہنا تھا کہ کامیڈی بھی انہی باتوں پر ہوتی ہے جن پر لوگ روزمرہ کی زندگی میں مذاق کرتے ہیں۔ جیسے ایک دوسرے سے ملتے ہوئے کسی کے موٹاپے یا گنج پن پر مذاق کر دیا جاتا ہے۔
ان کے مطابق ایسے میں ان شوز کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’’یہ درست ہے کہ ایسا زیادہ ہوتا ہے، میں اس کا دفاع نہیں کر رہا، اگر کسی کی رنگت یا معذوری کا مذاق اڑایا جائے۔‘‘
جنید سلیم نے کہا کہ پوری دنیا میں ٹرمپ کی ظاہری شخصیت کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔
میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی کے ڈائریکٹر اسد بیگ کا اس پر کہنا تھا کہ یہ درست ہے کہ ٹرمپ پر تنقید ہوتی ہے۔ لیکن کسی کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ بولتا کیسے ہے اور اس کی نقل اتارنا یا کسی کو کہنا کہ وہ موٹا، ڈھبا، پتلا یا چھوٹا ہے، کسی کی جسمانی ساخت کا مذاق اڑانا یا کسی کے انداز گفتگو کی نقل کرنے میں باریک فرق ہے۔
’خبرزار‘ کے میزبان اور حسب حال سمیت متعدد ایسے ہی پروگرامز کے خالق آفتاب اقبال کے مطابق ان کے پروگرام میں مذاق لوگوں کی نامناسب عادات کا اڑایا جاتا ہے، جیسے اگر کوئی فربہ ہے مگر اسے پیٹ پھیلا کر بیٹھنے کی عادت ہے، یا اگر کوئی شخص غلاظت پسندی کا عادی ہے، ناصرف عادی بلکہ اس پر فخر بھی کرتا ہے۔
آفتاب اقبال کا کہنا تھا کہ جب کسی شخص کو ہم اس کی ان حرکات پر چوٹ دیتے ہیں، تو وہ اسے ساری زندگی نہیں بھولتی، ’’وہ یہ یاد رکھے گا کہ واقعی یہ بہت اہم بات ہے، دیکھیں میں کہاں خارش کر رہا تھا، اور کہاں بیٹھ کر کر رہا تھا، مجھے اس کا خیال کرنا چاہئے تھا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ اسی کلیے کے تحت وہ وقتاً فوقتاً لباس، وضع قطع، کھانے پینے کا انداز، گفتگو کرنے، ٹیلی فون کرنے سے متعلق نامناسب عادات وغیرہ جیسی باتوں کو ’پوائنٹ آف ریڈیکیول‘ یا تضحیک کا نشانہ بناتے ہیں، اور دوسرا مقصد اس کے ساتھ کامیڈی بھی نکلتی ہے۔
رضا رومی نے کہا کہ دنیا کا ہر معاشرہ اس طرح کے مذاق اور جگت بازی سے گزرا ہے۔ اگر آپ شیکسپیئر کے ڈارامے بھی دیکھیں تو ان میں بھی ’سلیپ سٹک ہیومر‘ یا ’بازاری مزاح نگاری‘ کا استعمال کیا جاتا تھا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تعلیم و آگاہی اور انسانی حقوق کے شعور نے یہ روایت بدل دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب مہذب اقوام میں گھٹیا اور لچر مزاح نگاری کو پسند نہیں کیا جاتا۔ اور نہ ہی میڈیا میں اس کی کوئی جگہ ہوتی ہے۔