علی گل پیر ایسے پاپ سنگر ہیں جنہوں نے پاکستان میں سوشل میڈیا کے ذریعے شہرت پائی۔ شہرت بھی اس تیز رفتاری سے کہ بہت سے لوگ ان سے پیچھے رہ گئے۔ ان کا پہلا گانا ’سائیں تو سائیں، سائیں کا کتا بھی سائیں‘۔۔ سوشل ویب سائٹ پر کیا آیا دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں لبوں کی زینت بن گیا۔ جسے دیکھو یہی گانا گنگنانے لگا۔ نوجوان تو نوجوان، چھوٹے چھوٹے بچے بھی اس گانے کو گنگنائے بغیر نہ رہ سکے۔
علی گل پیر کم وقت میں زیادہ مشہور ہونے کا سبب یہ بتاتے ہیں کہ وہ معاشرے کی دکھتی رگ پر مذاق، مذاق میں بڑی مہارت سے ہاتھ رکھتے ہیں۔ کسی نہ کسی غلط کام کو جو لوگوں کی زندگی پر بری طرح اثرانداز ہو رہا ہوا، اُسے ایسے اسٹائل سے سامنے لاتے ہیں کہ کوئی بھی اس کا نوٹس لئے بغیر رہ نہیں سکتا۔
ان کے اب تک ریلیز ہونے والے دونوں گانوں ’سائیں تو سائیں‘ اور ’تاڑو ماروں‘
کو سنیں تو یہ بات بالکل درست معلوم ہوتی ہے۔ ’سائیں تو سائیں‘ دراصل ایک ایسے وڈیرے کی غلط اور روایتی عادات کی نشاندہی ہے جس کا دوسرے لوگ شکار ہوتے ہیں مگر وہ خود اس غلطی کو کبھی غلطی شمار نہیں کرتا۔ اسی طرح، ’تاڑو ماروں‘ اُن افراد کا آئینہ ہے جو معاشرے میں لڑکیوں اور خواتین کو گھورتے ہیں اور یہ گھورنا ان کی عادت بن گئی ہے۔ حیرت انگیز طور پر، بے شمار افراد اس کا شکار ہیں اور یہ بھی ایسی ہی غلطی ہے جو حرف عام میں ’غلطی‘ لگتی ہی نہیں۔
اس ’تاڑو شخص‘ کے بارے میں علی گل پیر کہتے ہیں: ’آپ کہیں بھی چلے جائیں آپ کو ’تاڑو‘ ملے گا۔ مرسیڈیز میں گھومنے والا، رکشے والا، بس کا مسافر، سوٹڈ بوٹڈ شخص۔ غرض کہ، ہرجگہ اور ہر حال میں ’تاڑو‘ موجود ہے‘۔۔۔۔
پچھلے دنوں، علی گل پیر نے ’وائس آف امریکہ‘ کو ایک خصوصی انٹرویو دیا جس میں انہوں نے اپنے گانوں، اپنے کیئریر، شوق اور مستقبل کے منصوبوں کے حوالے سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔
’علی آپ ان خوش نصیب لوگوں میں سے ہیں جو راتوں رات مشہور ہوجاتے ہیں۔۔۔آپ کاپہلا گانا ’سائیں تو سائیں‘ کیا آیا، آپ کی شہرت کو پر لگ گئے ۔ ۔۔آپ دیکھتے ہی دیکھتے سنگر بن گئے۔ یہ سب اتنی جلدی کس طرح ممکن ہوگیا؟‘
’یہ سب میرے لحاظ سے اتنا جلدی نہیں ہوا۔ میں نے چار سال میں بیچلر ان میڈیا سائنس کیا۔ اس کے بعد تین چار سال تک میں نے پروڈکشن ہاؤسز اور ٹی وی چینلز کے ساتھ کام کیا۔۔ لیکن، کہتے ہیں نا کہ تخلیق کا عمل سب سے زیادہ اس وقت ہوتا ہے جب انسان ذرائع کے حوالے سے سب سے زیادہ محدود ہوتا ہے۔ ایک وقت آیا جب میں اپارٹمنٹ میں رہتا تھا۔ صبح شام بس چائے پاپے کھا کر گزارہ ہوتا تھا۔ کیوں کہ کامیڈی سے پاکستان میں لوگ زیادہ پیسہ نہیں کماپاتے۔۔ بس، ایسے میں، مجھے ’سائیں کے بیٹے‘ کا خیال آگیا۔ سائیں مطلب وڈیرے کا بیٹا۔۔ کیونکہ، جب میں اسکول میں پڑھتا تھا تو ہمارے ساتھ وڈیرے کے بیٹے اور بیٹیاں بھی پڑھتی تھیں۔ انہیں لینے کے لئے گارڈ آتے تھے، جبکہ ان کی اور گارڈز کی گاڑیاں تک الگ الگ ہوا کرتی تھیں۔ انہی کو دیکھ کر ہم کہاکرتے تھے کہ’سائیں تو سائیں۔۔۔سائیں کا کتا بھی سائیں۔۔‘ بس۔ اُنہی دنوں یہ آئیڈیا آیا کہ کیوں نہ ’سائیں‘ کے بیٹے پر کچھ کیا جائے۔
ایسے موقع پر جبکہ پاکستان میں یو ٹیوب بھی بند ہے اور آپ کی کوئی البم بھی ابھی تک مارکیٹ نہیں ہوئی، پھر بھی ’سائیں‘ چھاتا چلا گیا۔ ایسے حالات میں خود کو متعارف کرانے میں پریشانیاں تو بہت اٹھانا پڑیں ہوں گی۔۔؟
’جب بھی کوئی نئی چیز متعارف ہوتی ہے اس میں کچھ پریشانیاں تو ہوتی ہی ہیں۔ ہم نے گانا تیار کیا اور ٹی وی چینلز پہنچ گئے۔ لیکن، انہوں نے اسے چلانے سے انکار کر دیا۔ پھر ریڈیو کے لئے کوشش کی مگر وہاں بھی کامیابی نہ ملی۔ تو فیصلہ کیا کہ انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کریں۔ سوشل میڈیا میں فیس بک سب سے زیادہ مشہور ہے۔ چنانچہ، ہم نے گانا فیس بک پر شیئر کرادیا۔ ہمیں تو اندازہ بھی نہیں تھا کہ اس ویڈیو کو لاکھوں افراد دیکھیں گے ۔۔۔وہ بھی اتنے کم وقت میں۔ گانا دیکھتے دیکھتے پاپولر ہوگیا۔ لیکن، اس دوران کچھ لوگوں کو ایسا بھی لگا کہ ہم نے ان کا مذاق اڑایا تھا۔ اس لئے ہمیں دھمکیاں بھی سننے کو ملیں۔ مگر ہمارا ارادہ کسی شخصیت کا مذاق اڑانا نہیں تھا۔ ہمیں سوچ پر اعتراض تھا۔
’سائیں‘ کی ریلیز کو چھ مہینے ہی ہوئے ہیں کہ آپ کا نیا گانا ’تاڑو‘ آگیا۔ اس کا رسپارنس کیسا رہا؟
’’سائیں‘ کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ کچھ اور مختلف سا کام کیا جائے ۔۔کھلی ہوا میں سوچنے کی غرض سے ہم لوگ پارک میں آجاتے تھے کہ شائد کوئی نیا کونسپٹ آجائے۔ میں اکثر پارک میں بنے ایک ڈائنوسار کے ماڈل سے خود کلامی کیا کرتا تھا۔ اسی ڈائنو سار سے مجھے آئیڈیا ملاکہ جو لوگ پارک میں آکر بیٹھتے ہیں انہیں گھورنے کی بڑی سنگین عادت ہوتی ہے، خاص کر واک کے لئے پارک آنے والی لڑکیوں کو گھورنے کی عادت۔ بس میں نے فیصلہ کرلیا کہ اسی ’تاڑو ماڑوں‘ کو لیکر کچھ کرتے ہیں۔ اور یوں تاڑو ماڑوں تخلیق ہوگیا۔‘
ہم نے سنا ہے آپ خود کو کامیڈین کی حیثیت سے متعارف کرانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ اس میں کس حد تک سچائی ہے؟
’’میرے پہلے گانے ’وڈیرے کے بیٹے‘ کے بعد لوگ مجھے موسیقار کہنے لگے۔ لیکن، میرا نظریہ کچھ مختلف ہے۔ میں میوزیشنز کا بہت احترام کرتا ہوں۔ وہ برسوں ریاض کرتے ہیں، موسیقی سیکھنے میں سالوں لگاتے ہیں، انہیں میوزک کی زبان پڑھنا آتی ہے۔ لیکن میوزک سے ایسا کوئی رشتہ نہیں۔ میرا ایک بینڈ ہے جس کا نام وائٹل سائن ہے۔ پورا بینڈ بہت اچھا میوزک کمپوز کرتا ہے لیکن میں خود کو موسیقار نہیں سمجھتا۔ میں بنیادی طور پر انٹرٹینر ہوں۔ کامیڈی کی کوشش کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ ہر لیول پر کامیڈی ہو خواہ تھیٹر ہو، لائیو شو ہو یا گانا۔ میں ہر جگہ آڈینس کو انٹرٹین کروں گا۔‘‘
اردو وی او اے یو ٹیوب
اردو وی او اے ویمیو
علی گل پیر کم وقت میں زیادہ مشہور ہونے کا سبب یہ بتاتے ہیں کہ وہ معاشرے کی دکھتی رگ پر مذاق، مذاق میں بڑی مہارت سے ہاتھ رکھتے ہیں۔ کسی نہ کسی غلط کام کو جو لوگوں کی زندگی پر بری طرح اثرانداز ہو رہا ہوا، اُسے ایسے اسٹائل سے سامنے لاتے ہیں کہ کوئی بھی اس کا نوٹس لئے بغیر رہ نہیں سکتا۔
ان کے اب تک ریلیز ہونے والے دونوں گانوں ’سائیں تو سائیں‘ اور ’تاڑو ماروں‘
کو سنیں تو یہ بات بالکل درست معلوم ہوتی ہے۔ ’سائیں تو سائیں‘ دراصل ایک ایسے وڈیرے کی غلط اور روایتی عادات کی نشاندہی ہے جس کا دوسرے لوگ شکار ہوتے ہیں مگر وہ خود اس غلطی کو کبھی غلطی شمار نہیں کرتا۔ اسی طرح، ’تاڑو ماروں‘ اُن افراد کا آئینہ ہے جو معاشرے میں لڑکیوں اور خواتین کو گھورتے ہیں اور یہ گھورنا ان کی عادت بن گئی ہے۔ حیرت انگیز طور پر، بے شمار افراد اس کا شکار ہیں اور یہ بھی ایسی ہی غلطی ہے جو حرف عام میں ’غلطی‘ لگتی ہی نہیں۔
اس ’تاڑو شخص‘ کے بارے میں علی گل پیر کہتے ہیں: ’آپ کہیں بھی چلے جائیں آپ کو ’تاڑو‘ ملے گا۔ مرسیڈیز میں گھومنے والا، رکشے والا، بس کا مسافر، سوٹڈ بوٹڈ شخص۔ غرض کہ، ہرجگہ اور ہر حال میں ’تاڑو‘ موجود ہے‘۔۔۔۔
پچھلے دنوں، علی گل پیر نے ’وائس آف امریکہ‘ کو ایک خصوصی انٹرویو دیا جس میں انہوں نے اپنے گانوں، اپنے کیئریر، شوق اور مستقبل کے منصوبوں کے حوالے سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔
’علی آپ ان خوش نصیب لوگوں میں سے ہیں جو راتوں رات مشہور ہوجاتے ہیں۔۔۔آپ کاپہلا گانا ’سائیں تو سائیں‘ کیا آیا، آپ کی شہرت کو پر لگ گئے ۔ ۔۔آپ دیکھتے ہی دیکھتے سنگر بن گئے۔ یہ سب اتنی جلدی کس طرح ممکن ہوگیا؟‘
’یہ سب میرے لحاظ سے اتنا جلدی نہیں ہوا۔ میں نے چار سال میں بیچلر ان میڈیا سائنس کیا۔ اس کے بعد تین چار سال تک میں نے پروڈکشن ہاؤسز اور ٹی وی چینلز کے ساتھ کام کیا۔۔ لیکن، کہتے ہیں نا کہ تخلیق کا عمل سب سے زیادہ اس وقت ہوتا ہے جب انسان ذرائع کے حوالے سے سب سے زیادہ محدود ہوتا ہے۔ ایک وقت آیا جب میں اپارٹمنٹ میں رہتا تھا۔ صبح شام بس چائے پاپے کھا کر گزارہ ہوتا تھا۔ کیوں کہ کامیڈی سے پاکستان میں لوگ زیادہ پیسہ نہیں کماپاتے۔۔ بس، ایسے میں، مجھے ’سائیں کے بیٹے‘ کا خیال آگیا۔ سائیں مطلب وڈیرے کا بیٹا۔۔ کیونکہ، جب میں اسکول میں پڑھتا تھا تو ہمارے ساتھ وڈیرے کے بیٹے اور بیٹیاں بھی پڑھتی تھیں۔ انہیں لینے کے لئے گارڈ آتے تھے، جبکہ ان کی اور گارڈز کی گاڑیاں تک الگ الگ ہوا کرتی تھیں۔ انہی کو دیکھ کر ہم کہاکرتے تھے کہ’سائیں تو سائیں۔۔۔سائیں کا کتا بھی سائیں۔۔‘ بس۔ اُنہی دنوں یہ آئیڈیا آیا کہ کیوں نہ ’سائیں‘ کے بیٹے پر کچھ کیا جائے۔
ایسے موقع پر جبکہ پاکستان میں یو ٹیوب بھی بند ہے اور آپ کی کوئی البم بھی ابھی تک مارکیٹ نہیں ہوئی، پھر بھی ’سائیں‘ چھاتا چلا گیا۔ ایسے حالات میں خود کو متعارف کرانے میں پریشانیاں تو بہت اٹھانا پڑیں ہوں گی۔۔؟
’جب بھی کوئی نئی چیز متعارف ہوتی ہے اس میں کچھ پریشانیاں تو ہوتی ہی ہیں۔ ہم نے گانا تیار کیا اور ٹی وی چینلز پہنچ گئے۔ لیکن، انہوں نے اسے چلانے سے انکار کر دیا۔ پھر ریڈیو کے لئے کوشش کی مگر وہاں بھی کامیابی نہ ملی۔ تو فیصلہ کیا کہ انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کریں۔ سوشل میڈیا میں فیس بک سب سے زیادہ مشہور ہے۔ چنانچہ، ہم نے گانا فیس بک پر شیئر کرادیا۔ ہمیں تو اندازہ بھی نہیں تھا کہ اس ویڈیو کو لاکھوں افراد دیکھیں گے ۔۔۔وہ بھی اتنے کم وقت میں۔ گانا دیکھتے دیکھتے پاپولر ہوگیا۔ لیکن، اس دوران کچھ لوگوں کو ایسا بھی لگا کہ ہم نے ان کا مذاق اڑایا تھا۔ اس لئے ہمیں دھمکیاں بھی سننے کو ملیں۔ مگر ہمارا ارادہ کسی شخصیت کا مذاق اڑانا نہیں تھا۔ ہمیں سوچ پر اعتراض تھا۔
’سائیں‘ کی ریلیز کو چھ مہینے ہی ہوئے ہیں کہ آپ کا نیا گانا ’تاڑو‘ آگیا۔ اس کا رسپارنس کیسا رہا؟
’’سائیں‘ کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ کچھ اور مختلف سا کام کیا جائے ۔۔کھلی ہوا میں سوچنے کی غرض سے ہم لوگ پارک میں آجاتے تھے کہ شائد کوئی نیا کونسپٹ آجائے۔ میں اکثر پارک میں بنے ایک ڈائنوسار کے ماڈل سے خود کلامی کیا کرتا تھا۔ اسی ڈائنو سار سے مجھے آئیڈیا ملاکہ جو لوگ پارک میں آکر بیٹھتے ہیں انہیں گھورنے کی بڑی سنگین عادت ہوتی ہے، خاص کر واک کے لئے پارک آنے والی لڑکیوں کو گھورنے کی عادت۔ بس میں نے فیصلہ کرلیا کہ اسی ’تاڑو ماڑوں‘ کو لیکر کچھ کرتے ہیں۔ اور یوں تاڑو ماڑوں تخلیق ہوگیا۔‘
ہم نے سنا ہے آپ خود کو کامیڈین کی حیثیت سے متعارف کرانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ اس میں کس حد تک سچائی ہے؟
’’میرے پہلے گانے ’وڈیرے کے بیٹے‘ کے بعد لوگ مجھے موسیقار کہنے لگے۔ لیکن، میرا نظریہ کچھ مختلف ہے۔ میں میوزیشنز کا بہت احترام کرتا ہوں۔ وہ برسوں ریاض کرتے ہیں، موسیقی سیکھنے میں سالوں لگاتے ہیں، انہیں میوزک کی زبان پڑھنا آتی ہے۔ لیکن میوزک سے ایسا کوئی رشتہ نہیں۔ میرا ایک بینڈ ہے جس کا نام وائٹل سائن ہے۔ پورا بینڈ بہت اچھا میوزک کمپوز کرتا ہے لیکن میں خود کو موسیقار نہیں سمجھتا۔ میں بنیادی طور پر انٹرٹینر ہوں۔ کامیڈی کی کوشش کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ ہر لیول پر کامیڈی ہو خواہ تھیٹر ہو، لائیو شو ہو یا گانا۔ میں ہر جگہ آڈینس کو انٹرٹین کروں گا۔‘‘
اردو وی او اے یو ٹیوب
اردو وی او اے ویمیو