پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ نے ترمیم شدہ سائبر کرائم بل جمعہ کو منظور کر لیا جسے اب ایک بار پھر ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔
قومی اسمبلی جہاں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کی اکثریت ہے وہاں سے سائبر کرائم بل کا مسودہ رواں سال اپریل میں منظور کروایا گیا تھا لیکن سینیٹ میں اکثریتی جماعت پیپلز پارٹی سمیت بعض دیگر جماعتوں کے اراکین کی طرف سے پرانے مسودے پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔
جس کے بعد اس بل کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں بھیج دیا گیا جہاں طویل بحث کے بعد ترمیم شدہ مسودہ تیار کیا گیا۔
سینیٹ میں اس ترمیم شدہ بل پر ووٹنگ سے قبل رواں ہفتے ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی نے حزب مخالف اور انٹرنیٹ صارفین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے سرگرم کارکنوں کی طرف سے تجویز کردہ لگ بھگ 50 ترامیم مسودہ قانون میں شامل کی تھیں۔
کمیٹی کی طرف سے تجویز کردہ ترامیم کو حکومت نے منظور کر لیا تھا۔
مسودہ قانون میں شامل کی جانے والی ترامیم کے تحت سائبر کرائم قانون کے تحت خصوصی عدالتوں کے فیصلے کے خلاف 30 دن میں ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں اپیل دائر کی جا سکے گی۔
مجوزہ قانون کے تحت انٹرنیٹ کے ذریعے منافرت پر مبنی تقاریر اور فرقہ واریت پھیلانے پر سات سال تک قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے جب کہ دہشت گردی سے متعلق سائبر جرائم پر 14 سال تک قید اور پچاس لاکھ روپے تک جرمانہ کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔
اس کے علاوہ کسی کی رضامندی کے بغیر تصاویر شائع کرنے اور بچوں سے زیادتی سے متعلق مواد بھی انٹرنیٹ پر جاری کرنے والوں کے خلاف سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔
پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی طرف سے ترمیم شدہ مسودہ قانون پر بھی تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے اور اُن کا ماننا ہے کہ اس بل میں شامل بعض شقوں کے ذریعے انٹرنیٹ صارفین کے حقوق متاثر ہوں گے۔