وفاقی کابینہ نے دو روز قبل بجلی کی بچت کے قومی منصوبے کی منظوری دی تھی۔ لیکن ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب نے ہفتے میں دو دن چھٹی اور کاروباری مراکز شام آٹھ بجے تک بند کرنے کے فیصلے کی مخالفت کی ہے، جس کے باعث پہلے مرحلے میں منصوبے پر عمل درامد صرف وفاقی سطح تک محدود رہے گا۔
مرکزی حکومت کی توقع ہے کہ بجلی کی بچت کے منصوبے سے 1000 میگاواٹ بچت ہو گی جس میں 500 سے زائد میگاواٹ پنجاب میں منصوبے پر عملدآمد سے بچ سکیں گے۔ کیونکہ پاکستان کا یہ صوبہ بجلی کے استعمال کا سب سے بڑا صارف ہے۔
دوسری جانب جمعہ کے روز قومی اسمبلی نے توانائي کے بحران پر قابو پانے کے لیے 17 رکنی پارليماني کميٹی بھی تشکیل دی ہے جو بحران کی وجوہات کا تعين اور اس کے خاتمے کے لیے تجاويز پيش کرے گی۔
پاکستان میٕں کاروباری حلقوں کی طرف سے بھی بجلی کی بچت کے وفاقی منصوبے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے لیکن غیر جانبدار ماہر معاشیات ثاقب شیرانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ قلیل مدت میں بجلی کے بچت کے علاوہ حکومت کے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہے
’’ بجلی کی بچت کا منصوبہ اگر پنجاب میں لاگو نہ ہوا تو منصوبہ موثر نہیں ہو گا‘‘۔
ثاقب شیرانی کہتے ہیں کہ بجلی کے بحران سے پاکستانی معیشت کو سالانہ تقریباً 800 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے جو دہشت گردی اور امن و امان کی خراب صورتحال سے ہونے والے نقصانات سے زائد ہے۔ مزید براں ان کا کہنا ہے کہ لوڈشیڈنگ کے باعث صنعتوں کی بندش سے ملک میں بےروزگاری کی شرح میں اضافہ ہوا ہے اور گھریلو صنعت ختم ہو کر رہ گئی ہے جس کی وجہ سے ملک کی اقتصادی ترقی کی شرح نمو میں سالانہ تین سے 4 فیصد کمی ائی ہے۔
ثاقب شیرانی نے بتایا کہ توانائی کے شعبے کو بجلی کی چوری، بلوں کی عدم ادائیگی سمیت کئی انتظامی مسائل کا سامنا ہے۔
’’بجلی کی صرف چوری 15 سے 17 فیصد ہے۔ 100 ارب روپے کے بل پپیکو کے ملازمین صارفین سے پیسے لے کر معاف کر دیتے ہیں۔ گورننس کا مسئلہ بڑا ہے جو بحران کو مزید فروغ دے رہا ہے ۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ حکومت کو بجلی کی بچت کے منصوبوں کے ساتھ ساتھ انتظامی امور بہتر کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ کرائے کے بجلی کے پلانٹس سے پیداوار بہت مہنگی ہے۔
’’قلیل مدت میں پانی اور کوئلے کے ذخائر استعمال میں نہیں لا سکتے لیکن گیس وہ سستا ذریعہ ہے جو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ آئندہ دو سالوں کے لیے دیگر شعبوں سے گیس کی کٹوتی کر کے بجلی پیدا کی جائے‘‘۔
وفاقی وزیر پانی و بجلی نوید قمر کا کہنا ہے کہ بجلی کی بچت کے منصوبے پر عمل درآمد سے طلب و رسد میں فرق کم کرنے میں مدد ملے گی جس سے آگے چل کر غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ میں کمی آئے گی۔ حکومت نے اڑھائی سو ارب روپے کے واجب الادا بلوں کی وصولی کے لیے متعلقہ حکام کو اختیار دیا ہے کہ 45 روز کے اندر واجبات کی ادائیگی نہ کرنے پر بجلی کا کنکشن منقطع کر دیا جائے۔