پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی کمیشن اور الیکشن کمیشن کی طرف سے پارلیمان اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کی تعلیمی اسناد کی جانچ پڑتال کا کام اگرچہ جاری ہے لیکن ناقدین کی رائے میں یہ سست روی کا شکار دکھائی دیتا ہے اور وہ حلقے بھی اب اس معاملے پر بظاہر خاموش ہیں جو کچھ ماہ پہلے تک بی اے کی جعلی اسناد رکھنے والے قانون سازوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے۔
تاہم وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے چیئرمین جاوید لغاری نے اس تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ادارہ اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے پوری ذمہ داری سے کام کر رہا ہے اور اب تک تقریباً بارہ سو ارکان میں سے نو سوکی تعلیمی اسناد کی جانچ پڑتال مکمل کر لی گئی ہے جبکہ 54 اسناد کو جعلی قرار دے کر الیکشن کمیشن کو مطلع کر دیا گیا ہے۔
جاوید لغاری کے مطابق جن تین سو ڈگریوں کی جانچ پڑتال ابھی باقی ہے یہ وہ ہیں جن کے مکمّل کوائف ایکشن کمیشن نے فراہم نہیں کیے ۔
تاہم انہوں نے اس سوال کا واضح جواب دینے سے گریز کیا کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے دانستہ یا نا دا نستہ طور پر اس معاملے کو طول دیا جا رہا ہے۔
دوسری طرف الیکشن کمیشن کے ترجمان افضل خان سے جب رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اس بات کی تردید کی کہ کمیشن کی طرف سے تین سو تعلیمی اسناد کے مکمل کوائف فراہم نہیں کیے گیے جس کی وجہ سے ڈگریوں کی جانچ پڑتال تا حال مکمل نہیں ہو سکی۔
انہوں نہ بتایا کہ پارلیمان اور صوبائی اسمبلیوں کے کل 1168ارکان کی بے اے کی ڈگریوں کی جانچ پڑتال درکار تھی اور ان میں سے72 ممبران ایسے ہیں جو اس عمل سے مستثنی ہیں کیونکہ ان کا انتخاب 21 اپریل 2008 کے بعد ہوا جب انتخاب لڑنے کے لئے بی اے پاس ہونے کی شرط ہی ختم ہو چکی تھی۔ ’’اب اگر الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ اس نے نو سو اسناد کی جانچ پڑتال مکمل کر لی ہے تو اس حساب سے تو باقی رہ جانے والی ڈگریوں کی تعداد دو سو سے بھی کم ہونی چائیے‘‘۔
افضل خان کا کہنا تھا کہ ان کا ادارہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنا کام موثر انداز میں کر رہا ہے اور اعلی تعلیمی کمیشن کو وہ تمام دستاویز دے رہا ہے جسے فراہم کرنے کا یہ پا بند ہے۔
الیکشن کمیشن کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد نے ایک انٹرویو میں کہا کہ سپریم کورٹ کے گذشتہ سال کے فیصلے کے تحت کمیشن اس بات کا پابند ہے کہ وہ ان تمام ممبران کے کیس عدالتوں کے سپرد کرے جن کی اسناد نقلی یا مشکوک ہیں تاکہ ان افراد کے خلاف بد عنوانی کا مقدمہ چلایا جائے۔ ’’اور اگر جرم ثابت ہو جاتا ہے تو عدالت نہ صرف انہیں تین سال قید کی سزا دے سکتی ہے بلکہ یہ قانون ساز آئندہ سات سال کے لیے قومی یا صوبائی اسمبلیوں کا انتخاب لڑنے کے لیے بھی نا اہل ہو جائے گا‘‘۔
الیکشن کمیشن کے ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ادارے نے اب تک پندرہ ایسی اسناد متعلقہ اضلاع کے پولیس افسران کو بھجوائی ہیں جن کے جعلی ہونے کا شبہ تھا اور اب یہ پولیس کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان معاملات کی تحقیقات کرے تاکہ ملزمان کے خلاف عدالتوں میں مقدمہ چلایا جائے۔
ذرائع نے بتایا کہ دس قانون ساز ایسے بھی ہیں جن کی ڈگریاں مشکوک ہونے پر پولیس کے سپرد کی گئیں تھیں لیکن تحقیقات کے بعد یہ اصلی ثابت ہوئیں اور مقدمات ختم کر دیے گئے۔
الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ان کا کام صرف ضابطے کی کارروائی کرنا ہے جبکہ کسی بھی ممبر کی ڈگری کو اصلی یا نقلی قرار دینا یا پھر ممبر کو نا اہل قرار دینا صرف مجاز عدالت ہی کا اختیار ہے۔