کراچی —
موجودہ دور میں خواتین تعلیم حاصل کرکے مردوں کے شانہ بشانہ کام کررہی ہیں آج کی عورت ایک سیاستدان ہے، ایک استاد ہے تو ایک پائلٹ بھی ہے ایک اچھی گھریلو خاتون ہے تو ایک اچھی بزنس ویمن بھی۔ پاکستان میں ہر شبعبے میں خواتین کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔ اپنا کردار مستحکم بنانے کیلئے خواتین کا مضبوط ہونا ضروری ہے۔
سندھ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا 2008 میں سندھ کی تاریخ میں پہلی خاتون ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوئیں جو 5 سالوں سے اس عہدے پر فائز ہیں۔ وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے شہلا رضا نے بتایا کہ انھیں فخر ہے کہ وہ اس مقام ہر ہیں۔ ’’خواتین کو مختلف شعبوں کی طرح سیاست میں بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔خاتون ہونے کے ناطے مشکلات کا سامنا بھی رہا، خواتین کے کپڑوں تک پر اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں مگر خواتین کو اپنے آپ کو اتنا مضبوط بنائیں کہ کوئی کچھ نہ کر سکے۔‘‘
شہلا رضا کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتی ہیں کہ خواتین مردوں سے زیادہ بہتر کام کرسکتی ہیں۔ ’’ہمارے ہاں کا رواج ہے کہ خواتین کیلئے لوگ ہمیشہ دوسرا نظریہ رکھتے ہیں کہ خواتین کو گھرداری تک محدود رکھنا چاہئے مگر ایسا نہیں ہونا چاہئے دوسرے شعبوں کی طرح خواتین کو سیاست کا حصہ بھی بننا چاہئے تاکہ ملک میں اہم مثبت تبدیلیاں رونما ہوں۔‘‘
پروفیسر شائستہ آفندی پاکستان کی واحد خاتون پروفیسر ہیں جو پلاسٹک سرجری کے شعبے میں تدریس کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ پلاسٹک سرجن ایسوسی ایشن اور کراچی کے سول اسپتال میں قائم سندھ کے واحد برنس سینٹر کے قیام میں بھی ان کی خدمات شامل ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر شائستہ آفندی وائس آف امریکہ سے خصوصی انٹرویو میں بتاتی ہیں کہ انھوں نے طالب علموں کے ساتھ ساتھ طالبات کو بھی ٹریننگ اور تعلیم دی مگر پلاسٹک سرجری کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد طالبات کو امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا اور انھیں اس شعبے میں نمایاں مقام حاصل نہ ہوسکا۔
’’پاکستان میں خواتین جذباتی طور پر مضبوط ہیں اگر ان میں شعور اور تعلیم ہے تو انھیں ان کی صلاحیتوں کو منوانے میں کوئی نہیں روک سکتا۔ پاکستان کے دیہاتوں کی خواتین اس لئے پیچھے ہیں کہ ان کے پاس تعلیم اور انھیں شعورحاصل نہیں۔مردوں کے معاشرے میں خواتین کو سوچ بدلنے کی ضرورت ہے اگر پاکستان کی خواتین اپنے اپ کے علاوہ مردوں کی برتری کے بارے میں سوچتی ہیں تو انھیں یہ سوچ لے ڈوبے گی اور وہ کچھ نہیں کرپائیں گی خواتین اگر اپنے آپ کو مضبوط بنائیں تب ہی مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ چل سکتی ہیں۔‘‘
گزشتہ سال تیزاب سے کئے گئے حملوں میں پاکستان میں 83 خواتین کو تیزاب سے جھلسایا گیا۔ تیزاب سے متاثرہ خواتین کی پلاسٹک سرجری اور علاج کے حوالے سے ڈاکٹر شائستہ آفندی بتاتی ہیں کہ ’’تیزاب سے جھلسائی ہوئی متاثرہ خواتین کی سرجری اور علاج کے بعد اگر انھیں معاشرے کی جانب سے بھی حمایت حاصل ہو تو وہ دوبارہ اپنی زندگی نارمل طریقے سے شروع کرسکتی ہیں۔‘‘
حقوق نسواں کیلئے کام کرنے والی خاتون فرزانہ باری کہتی ہیں کہ خواتین کا سماجی مقام معاشرے میں اہمیت کا حامل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے دیکھا جائے تو پاکستانی خواتین کو مردوں کے برابر کا مقام دلانے کیلئے ابھی ابھی طویل جدوجہد کی ضرورت ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں فرزانہ باری کہتی ہیں ’’اگر ملک میں غربت، مہنگائی، تشدد اورانتہاپسندی بڑھ جاتی ہے تو اس کا براہ راست اثر خواتین پر ہوتا ہے۔ پچھلے چند سالوں میں پاکستان میں خواتین کے حقوق کیلئےقانونی پیش رفت تو بڑھی ہے مگر عملی طور پر شہروں میں رہنےوالی مڈل کلاس کو فائدہ ہوا مگر غریب عورتوں کی زندگی میں کوئی بہتری نہیں آئی ، ان کے مسائل جوں کے توں ہیں معاشرے میں عورت کی تعلیم کی شرح 30 فیصد سے زیادہ نہیں ہےجبکہ صحت کی بنیادی سہولتیں نہ ہونے کے باعث بھی عورتوں کی اموات عام بات بن گئی ہے۔ معاشرے میں ذہنی دباؤ کے شکار سب سے زیادہ خواتین ہیں۔‘‘
ناقدین کا کہنا ہے کہ دوسری جانب معیشت کی ترقی میں 70 فیصد کردار عورتوں کا ہے مگر ان کو وہ مقام نہیں مل رہا اور مزدور طبقے میں بھی خواتین کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ ملک میں موجودہ اقتدار میں خواتین کے لئے قوانین تو بن گئے ہیں مگر ان پر عملدرآمد نہ ہونا بھی ہمارے ملک کا ایک اہم مسئلہ ہے۔
سندھ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا 2008 میں سندھ کی تاریخ میں پہلی خاتون ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوئیں جو 5 سالوں سے اس عہدے پر فائز ہیں۔ وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے شہلا رضا نے بتایا کہ انھیں فخر ہے کہ وہ اس مقام ہر ہیں۔ ’’خواتین کو مختلف شعبوں کی طرح سیاست میں بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔خاتون ہونے کے ناطے مشکلات کا سامنا بھی رہا، خواتین کے کپڑوں تک پر اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں مگر خواتین کو اپنے آپ کو اتنا مضبوط بنائیں کہ کوئی کچھ نہ کر سکے۔‘‘
شہلا رضا کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتی ہیں کہ خواتین مردوں سے زیادہ بہتر کام کرسکتی ہیں۔ ’’ہمارے ہاں کا رواج ہے کہ خواتین کیلئے لوگ ہمیشہ دوسرا نظریہ رکھتے ہیں کہ خواتین کو گھرداری تک محدود رکھنا چاہئے مگر ایسا نہیں ہونا چاہئے دوسرے شعبوں کی طرح خواتین کو سیاست کا حصہ بھی بننا چاہئے تاکہ ملک میں اہم مثبت تبدیلیاں رونما ہوں۔‘‘
پروفیسر شائستہ آفندی پاکستان کی واحد خاتون پروفیسر ہیں جو پلاسٹک سرجری کے شعبے میں تدریس کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ پلاسٹک سرجن ایسوسی ایشن اور کراچی کے سول اسپتال میں قائم سندھ کے واحد برنس سینٹر کے قیام میں بھی ان کی خدمات شامل ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر شائستہ آفندی وائس آف امریکہ سے خصوصی انٹرویو میں بتاتی ہیں کہ انھوں نے طالب علموں کے ساتھ ساتھ طالبات کو بھی ٹریننگ اور تعلیم دی مگر پلاسٹک سرجری کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد طالبات کو امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا اور انھیں اس شعبے میں نمایاں مقام حاصل نہ ہوسکا۔
’’پاکستان میں خواتین جذباتی طور پر مضبوط ہیں اگر ان میں شعور اور تعلیم ہے تو انھیں ان کی صلاحیتوں کو منوانے میں کوئی نہیں روک سکتا۔ پاکستان کے دیہاتوں کی خواتین اس لئے پیچھے ہیں کہ ان کے پاس تعلیم اور انھیں شعورحاصل نہیں۔مردوں کے معاشرے میں خواتین کو سوچ بدلنے کی ضرورت ہے اگر پاکستان کی خواتین اپنے اپ کے علاوہ مردوں کی برتری کے بارے میں سوچتی ہیں تو انھیں یہ سوچ لے ڈوبے گی اور وہ کچھ نہیں کرپائیں گی خواتین اگر اپنے آپ کو مضبوط بنائیں تب ہی مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ چل سکتی ہیں۔‘‘
گزشتہ سال تیزاب سے کئے گئے حملوں میں پاکستان میں 83 خواتین کو تیزاب سے جھلسایا گیا۔ تیزاب سے متاثرہ خواتین کی پلاسٹک سرجری اور علاج کے حوالے سے ڈاکٹر شائستہ آفندی بتاتی ہیں کہ ’’تیزاب سے جھلسائی ہوئی متاثرہ خواتین کی سرجری اور علاج کے بعد اگر انھیں معاشرے کی جانب سے بھی حمایت حاصل ہو تو وہ دوبارہ اپنی زندگی نارمل طریقے سے شروع کرسکتی ہیں۔‘‘
حقوق نسواں کیلئے کام کرنے والی خاتون فرزانہ باری کہتی ہیں کہ خواتین کا سماجی مقام معاشرے میں اہمیت کا حامل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے دیکھا جائے تو پاکستانی خواتین کو مردوں کے برابر کا مقام دلانے کیلئے ابھی ابھی طویل جدوجہد کی ضرورت ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں فرزانہ باری کہتی ہیں ’’اگر ملک میں غربت، مہنگائی، تشدد اورانتہاپسندی بڑھ جاتی ہے تو اس کا براہ راست اثر خواتین پر ہوتا ہے۔ پچھلے چند سالوں میں پاکستان میں خواتین کے حقوق کیلئےقانونی پیش رفت تو بڑھی ہے مگر عملی طور پر شہروں میں رہنےوالی مڈل کلاس کو فائدہ ہوا مگر غریب عورتوں کی زندگی میں کوئی بہتری نہیں آئی ، ان کے مسائل جوں کے توں ہیں معاشرے میں عورت کی تعلیم کی شرح 30 فیصد سے زیادہ نہیں ہےجبکہ صحت کی بنیادی سہولتیں نہ ہونے کے باعث بھی عورتوں کی اموات عام بات بن گئی ہے۔ معاشرے میں ذہنی دباؤ کے شکار سب سے زیادہ خواتین ہیں۔‘‘
ناقدین کا کہنا ہے کہ دوسری جانب معیشت کی ترقی میں 70 فیصد کردار عورتوں کا ہے مگر ان کو وہ مقام نہیں مل رہا اور مزدور طبقے میں بھی خواتین کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ ملک میں موجودہ اقتدار میں خواتین کے لئے قوانین تو بن گئے ہیں مگر ان پر عملدرآمد نہ ہونا بھی ہمارے ملک کا ایک اہم مسئلہ ہے۔