پاکستان میں خواتین اور معاشرے کے کمزور طبقات کے خلاف تشدد کے واقعات آئے روز رونما ہوتے رہتے ہیں لیکن ان کی سب سے بھیانک اور خطرناک شکل وہ جسمانی تشدد ہے جس میں تیزاب استعمال کیا جاتا ہے۔
تیزاب حملوں کا نشانہ بننے والوں میں خواتین و مرد دونوں ہی شامل ہیں لیکن ان میں زیادہ تعداد خواتین کی ہوتی ہے جو زندگی بھر کے لیے نا صرف معذور ہو جاتی ہیں بلکہ بعض اوقات انہیں اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔
ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے پاکستان کی پارلیمان نے 2011 میں ایک قانون منظور کرتے ہوئے تیزاب اور جلائے جانے کے حملے کے مرتکب افراد کے لیے چودہ سال قید کے ساتھ جرمانے کی سزا بھی مقرر کی تھی۔
تاہم اب اس قانون کو مزید موثر بنانے کے لیے پاکستان کی قومی اسمبلی کی ایک ذیلی کمیٹی نے ایک مسودہ قانون کی منظوری دی ہے جس میں اب تیزاب حملوں اور جلائے جانے کے واقعات میں ملوث افراد کے لیے عمر قید کی سزا تجویز کی گئی ہے اور اس قانون کے موثر نفاذ کے لیے ایک نگرانی بورڈ تشکیل دینے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔
بل میں سفارش کی گئی ہے کہ تیزاب اور آگ سے جلنے والوں کو طبی امداد فراہم کرنا اور ان کی بحالی کی ذمہ داری حکومت کی ہو گی۔
اگرچہ حالیہ سالوں میں پاکستان کی پارلیمان نے خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات کی روک تھام کے لیے کئی قوانین منظور کیے ہیں جسے حقوق نسواں کی تنظیموں کی طرف سے سراہا گیا ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ ان قوانین کے موثر نفاذ کے لیے اقدمات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
حقوق نسواں کی سرگرم کارکن مہناز رفیع نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں تیزاب اور جلائے جانے کے جرم کے خلاف قانون موجود ہونے کے باوجود ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں اور ان کے بقول تیزاب کی خرید وفروخت کے عمل کی موثر نگرانی بھی ضروری ہے تاکہ یہ آسانی سے دستیاب نا ہو سکے۔
" جتنے سخت قوانین بنیں اچھی بات ہے ۔ اگر کسی قانون میں کوئی کمی رہ جائے تو اس کو ترمیم سے درست کر لیا جائے ۔۔۔۔ لیکن ہمارے ہاں صرف قوانین بنا لینے سے فرق نہیں پڑتا ہے جب تک معاشرے کے اندر یہ احساس اجاگر نا ہو کہ عورت پرظلم کرنا غلط بات ہے۔"
پاکستان میں تیزاب کے حملے کا نشانہ بننے والوں کے تحفظ اور بحالی کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم ایسڈ سروائیور فاؤنڈیشن کے مطابق 2015ء میں رپورٹ ہونے والے تیزاب حملوں کی تعداد 69 تھی جبکہ 2014ء میں یہ تعداد لگ بھگ 150 تھی اور ان میں زیادہ تعداد خواتین کی بتائی گئی ہے۔