پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما اور حالیہ انتخابات میں منتخب ہونے والے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر نے اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس کی جس میں محسن داوڑ کا کہنا تھا کہ ’’ہمارے ملک میں جنگ ایک کاروبار بن چکا ہے‘‘۔
محسن داوڑ نے کہا کہ ’’حالات سے اندازہ لگا لیں کہ آپریشن ضرب عضب کتنا کامیاب ہے۔ اب لوگوں کو گھر کے اندر مارا جا رہا ہے۔ ہمارے لوگوں سے اسلحہ لے لیا گیا مگر دہشت گردوں سے اسلحہ نہیں لیا جاسکا۔ حقائق پیش کرنے والوں کو مارا جا رہا ہے۔ جب لوگوں کے گلے کاٹے جارہے تھے اس وقت ریاست کہاں تھی، جنگ کے کاروبار سے جو پیسہ آرہا ہے ساری دنیا کو پتا ہے وہ کہاں جا رہا ہے‘‘۔
محسن داوڑ اور علی وزیر نے آزاد حیثیت میں قومی اسمبلی میں جانے کا اعلان کیا۔
اُنھوں نے کہا ہے کہ ’’ہم اپنے حلقوں کے تمام ووٹروں کے بہت مشکور ہیں۔ انتخابات سے قبل بھی امن کا حق مانگا تھا اور آج اسمبلی میں بھی امن مانگنے آئے ہیں۔ ہماری کامیابی شمالی اور جنوبی وزیرستان میں امن کے خلاف آواز اٹھانے کا منہ بولتا ثبوت ہے‘‘۔
علی وزیر نے کہا کہ ’’ریاستی حلف اٹھانے سے پہلے اپنے لوگوں سے وعدہ کرتے ہیں کہ امن کے لئے ہی آواز اٹھاتے رہیں گے۔ اپنی حثیت آزاد رکھنے کے طور پر برقرار رکھنے کا اعلان کرتے ہیں۔ عوام کے حقوق کے لئے آواز اٹھانے سے متعلق سب کو ہمارے انتخاب سے سبق سیکھنا چاہئے۔ اگر عوام کی سپورٹ حاصل ہو تو کوئی قوت آپ کو ہرا نہیں سکتی‘‘۔
محسن داوڑ نے کہا کہ ’’سب سیاسی جماعتوں سے گزارش ہے کہ سیاسی جوڑ توڑ، خرید و فروخت اور عوامی مینڈیٹ سے غداری کے ماحول سے ہمیں محفوظ رکھا جائے۔ ہم عوامی مینڈیٹ اور ووٹ کے تقدس کے لیے اپنی آزاد حیثیت برقرار رکھیں گے۔ حکومتی یا اپوزیشن اتحاد میں شمولیت کا فیصلہ بعد میں کیا جائے گا لیکن ایسا ہم بطور آزاد اتحادی کریں گے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ’’ہم اسمبلی کے فلور پر ریاست سے وہ حق مانگیں گے جو ہمیں آئین نے دیا ہے۔ ہمیں غدار کہا گیا مگر ہمیں عوام نے ووٹ دیا۔ اور ہمارے بیانیہ پر مہر لگائی۔ آپریشن ضرب عضب ختم ہو گیا ہے۔ لیکن، وزیرستان کے لوگ کیمپوں میں سسک رہے ہیں۔ ضرب عضب پر اربوں روپیہ لگایا گیا۔ پورے وزیرستان میں ٹارگٹ کلنگ پہلے سے بدتر انداز میں جاری ہے۔ ریاستی حلف سے پہلے اپنے لوگوں کے سامنے حلف اٹھاتے ہیں کہ ہم مظلوم عوام کی آواز، فریاد ایوان تک پہنچائیں گے‘‘۔
پشتون تحفظ موومنٹ کے حوالے سے محسن داوڑ نے کہا کہ ’’پشتون تحفظ ہمارے وجود کا حصہ ہے۔ منظور پشتین کے ساتھ وہی رشتہ ہوگا۔ منظور پشتین ہمارا لیڈر ہے اور پختون تحفظ ہماری تنظیم ہے۔ ہم صوابی میں ہونے والے جلسے میں شرکت کریں گے‘‘۔
انہوں نے کہا کہ ’’پارلیمانی نظام سے پشتون تحفظ موومنٹ کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ پارلیمنٹ میں مظلوم پختونوں کی آواز اٹھائیں گے‘‘۔
علی وزیر نے کہا کہ ’’تاثر بن گیا تھا کہ ایک مضبوط ادارے کی سپورٹ سے جیت سکتے ہیں۔ لیکن ہمارے علاقے کی عوام نے اس تاثر کو غلط ثابت کیا ہے۔ وزیرستان کی عوام نے ووٹ کے ذریعے ’اسٹیٹس کو‘ توڑ کر دکھایا ہے اور اب یہ پورے ملک میں پھیلے گا۔ کسی ادارے، فرد یا سیاسی جماعتوں کے خلاف ذاتی بنیاد پر بات نہیں کریں گے۔ ریاست کے وہ ادارے جو ریاست کو اپنے کاروبار اور اپنی مرضی سے چلاتے ہیں ان کے اس کاروبار کی مخالفت کی جائے گی۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ’’ہم پارلیمنٹ اور ریاست سے مطالبہ کرتے ہیں کہ پختون تحفظ مومنٹ کے آئین کے تحت تمام مطالبے حل کیے جائیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ریاستی ادارے 50 نامور دہشت گردوں کو دنیا کے سامنے پیش کرکے بتادیں کہ گرفتار یا مارا گیا ہو؟ عمران خان نے میڈیا کے ذریعے ہمارے مطالبات کی حمایت کی۔ آنے والے دنوں میں دیکھتے ہیں کہ اگر عمران خان حکومت بنا کر اپنے بیانات پر عمل کرتے ہیں تو ان کے پاس جانے کا فیصلہ کریں گے۔ ہم ’ایشوز کی بنیاد پر‘ سیاست کرتے رہیں گے اور آزاد حثیت سے پارلیمنٹ کا حصہ ہوں گے۔ مستقبل قریب حکومت اور اپوزیشن کے کردار کو دیکھ کر کسی کے ساتھ شمولیت کا فیصلہ کریں گے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ’’ہم درخواست کرتے ہیں کہ ہمارے مطالبات پورے کیے جائیں۔ ہمیں مزید مظاہروں پر مجبور نہ کریں ورنہ دنیا کے تاریخی احتجاج اور دھرنے دے دیں گے‘‘۔
پشتون نوجوانوں کی تنظیم، ’پشتون تحفظ موومنٹ‘ نے مختصر عرصہ میں پشتون علاقوں میں کی جانے والی مبینہ زیادتیوں کے خلاف آواز بلند کی اور اب حالیہ انتخابات میں اگرچہ پی ٹی ایم نے براہ راست اس عمل میں حصہ نہیں لیا۔ لیکن، ان کے دو رہنما محسن داوڑ اور علی وزیر وزیرستان سے انتخاب جیتنے کے بعد ایوان میں پہنچ گئے ہیں۔