ترکی اور امریکہ نے شام میں جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے جس کے مطابق اگر کرد فوجیں ترک سرحد سے ملحقہ علاقہ خالی کر دیتی ہیں تو ترکی اپنی فوجی کارروائی ختم کر دے گا۔
امریکہ اور ترکی کے درمیان جمعرات کو طے پائے جانے والے اس معاہدے کی رو سے ترکی شام میں پانچ روز تک کوئی کارروائی نہیں کرے گا۔ کرد فوجیں ترک سرحد سے 32 کلو میٹر پیچھے چلی جائیں گی اور علاقے کو ترکی کے مطالبے کے مطابق ‘سیف زون’ سمجھا جائے گا۔
امریکہ کے نائب صدر مائیک پینس نے ترک صدر رجب طیب ایردوان سے انقرہ میں ملاقات کی جس کے دوران مذکورہ معاہدے پر اتفاق ہوا۔
اس ملاقات کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مائیک پینس کا کہنا تھا کہ ترکی شام میں جنگ بندی پر راضی ہو گیا ہے۔ تاہم امریکہ شام میں اپنی مصروفیات جاری رکھے گا لیکن اس کی نوعیت فوجی نہیں ہو گی۔
اُن کا کہنا تھا کہ یہ جنگ بندی اس سال کے شروع میں ترکی کے ساتھ سیکیورٹی کے انتظامات سے متعلق معاہدے سے بہت حد تک مشابہت رکھتی ہے۔
اس معاہدے کے تحت امریکہ نے شام کے کردوں ایس ڈی ایف کو اس پر راضی کر لیا ہے کہ وہ اپنی دفاعی قلعہ بندیاں ختم کر دیں گے اور وہ ترکی کو مطمئن کرنے کے لیے اپنے جنگجو سرحد سے واپس بلا لیں گے۔
امریکہ معاہدے کے تحت ترک فوج کے ساتھ مشترکہ گشت کا انتظام کرے گا اور انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ کرے گا۔
سی این این کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مائیک پینس کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ نے یہ واضح کر دیا ہے کہ ہم شام میں اپنے فوجی نہیں رکھیں گے لیکن امریکہ اپنی سفارتی، سیاسی اور انسانی ہمددردی سے متعلق سرگرمیاں جاری رکھے گا۔
انہوں نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ صدر ٹرمپ نے اُنہیں اس خطے میں تشدد روکنے کے لیے بھیجا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنا مقصد حاصل کر لیا ہے۔ ہم نے وائی پی جی کے ساتھ کام کرتے ہوئے ایک زیادہ پرامن، محفوظ اور مستحکم بفر زون قائم کرنے کا مقصد بھی حاصل کر لیا ہے۔
اس سے قبل نائب صدر مائیک پینس، وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر رابرٹ او برائن نے ترک صدر رجب طیب ایردوان سے ملاقات کی، جو انقرہ کے قصر صدارت میں ہوئی۔
خبر رساں ادارے 'اے پی' کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جمعرات کی سہ پہر ہونے والی یہ ملاقات تقریباً 90 منٹ تک جاری رہی۔ لیکن، فوری طور پر یہ معلوم نہیں ہو سکا آیا اس کے نتیجے میں جنگ بندی کی جانب پیش رفت ہو سکے گی؟
’لاس اینجلس ٹائمز‘ نے بتایا ہے کہ اپنی آمد کے فوری بعد نائب صدر مائیک پینس نے ترک صدر ایردوان سے ’ون آن ون‘ ملاقات کی جس میں ان دونوں کے علاوہ دو مترجم موجود تھے۔
ابتدائی طور پر یہ ملاقات دس منٹ کے لیے طے تھی، مگر بعد ازاں اس دو طرفہ ملاقات میں وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور دوسرے افراد بھی شامل ہو گئے۔
پینس جب ترکی پہنچے تو انہیں نامہ نگاروں کی طرف سے صدر ٹرمپ کے اس خط کے بارے میں سوالات کا سامنا کرنا پڑا جس کے متعلق ترکی کا کہنا ہے کہ اسے کوڑے دان میں پھینک دیا گیا ہے۔
وائٹ ہاؤس نے بدھ کے روز صدر ٹرمپ کی جانب سے نو اکتوبر کو ترک صدر کو بھیجا جانے والا خط جاری کر دیا ہے جس میں ٹرمپ نے ایردوان کو ایک مشکل شخص قرار دیا ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ آپ ہزاروں لوگوں کی ہلاکتوں کے ذمہ دار بننا نہیں چاہیں گے اور میں بھی یہ نہیں چاہوں گا کہ ترکی کی معیشت کی تباہی مجھ سے منسوب ہو۔ اور میں کروں گا۔
صدر ایردوان نے اس سے اگلے روز ترک فوجوں کو شام پر حملے کا حکم دے دیا تھا۔
ترکی کا طویل عرصے سے یہ مؤقف رہا ہے کہ شام میں موجود کرد عسکریت پسند، کردستان ورکرز پارٹی کی ہی ایک شاخ ہیں جو طویل عرصے ترکی کے خلاف گوریلا جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔
ترکی کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اپنی سرحد پر کرد باغیوں کی موجودگی قبول نہیں کرے گا اور یہ کہ وہ شام کی سرحد کے اندر ایک محفوظ علاقہ قائم کرنا چاہتا ہے جہاں شام کے پناہ گزینوں کو بسایا جائے گا، جب کہ امریکہ یہ چاہتا ہے کہ ترکی ان کردوں کے خلاف کارروائی نہ کرے جو داعش کے خلاف جنگ میں امریکہ کے اتحادی رہے ہیں۔