امریکہ نے پاکستان کے لیے اتحادی اعانتی فنڈ کی مد میں دی جانے والی 30 کروڑ ڈالر کی امدادی رقم روک دی ہے۔
محکمہ دفاع کے ترجمان ایڈم سٹمپ کے مطابق وزیر دفاع ایش کارٹر نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ کانگریس کو یقین دہانی کے اس سرٹیفیکٹ پر دستخط نہیں کریں گے جو دہشت گرد گروپ حقانی نیٹ ورک کے خلاف پاکستان کی ٹھوس کارروائیوں کی تصدیق کے لیے ضروری ہے۔
امریکی کانگریس کا اصرار رہا ہے کہ پاکستان صرف اپنے لیے خطرہ سمجھے جانے والے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جب کہ افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک اب بھی مبینہ طور پر اس کی سرزمین استعمال کر کے افغانستان میں امریکی مفادات پر حملے کر رہے ہیں۔
اس بنا پر اتحادی اعانتی فنڈ کو حقانی نیٹ ورک کے خلاف موثر کارروائیوں سے مشروط کیا گیا تھا۔
پاکستان نے پینٹاگان کے اس فیصلے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اتحادی اعانتی فنڈ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کوششوں کو جاری رکھنے میں معاون ہے جو کہ دونوں ملکوں کے مشترکہ مفاد میں ہے۔
جمعرات کو اسلام آباد میں دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں صحافیوں کو بتایا کہ ان کا ملک تمام دہشت گردوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی کر رہا ہے اور دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے اپنے عزم پر قائم ہے۔
"پاکستان کسی بھی دہشت گرد میں تفریق نہیں کرتا اور ہم نے دہشت گردی اور دہشت گرد عناصر کے خلاف پاکستان میں لڑائی شروع کی اور پورے خلوص اور اس عزم کے ساتھ کہ اس عفریت کو ختم کیا جائے گا، دوسرے ممالک کو بھی اپنے تعاون کی پیشکش کی ہے۔"
ان کا کہنا تھا کہ انسداد دہشت گردی میں پاکستان نے جتنی قربانیاں دیں اور جو نقصان برداشت کیا وہ دہشت گردی کے خلاف اس کی کوششوں کا ثبوت ہے۔
"میرا نہیں خیال کہ مجھے بین الاقوامی برادری کو یہ یاد کروانے کی ضرورت ہے اور ہم اکثر یہ بتاتے رہتے ہیں کہ انسداد دہشت گردی میں ہم نے کتنی قربانیاں دیں ہیں، ہم نے 60 ہزار جانیں گنوائیں جن میں چھ ہزار سکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں اور اگر آپ ان اعدادوشمار کا کسی بھی دوسرے ملک سے موازنہ کریں تو میرے خیال میں کسی بھی اور ملک نے اتنا نقصان برداشت نہیں کیا۔"
نفیس ذکریا کے بقول پاکستان اس بات کو یقینی بنانے کے لیے دہشت گردی کے خلاف اپنی لڑائی جاری رکھے گا کہ سکیورٹی فورسز نے جن علاقوں کو دہشت گردوں سے صاف کیا ہے وہ دوبارہ ان کے کنٹرول میں نہ جا سکیں۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ کانگریس کے سینیئر ارکان دہشت گردوں سے صاف کروائے گئے علاقوں کا دورہ کر چکے ہیں اور وہاں حاصل ہونے والی کامیابیوں بشمول امریکہ کی شراکت داری سے وہاں جاری ترقیاتی منصوبے بھی دیکھ چکے ہیں۔
حال ہی میں امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سربراہ جان مکین نے بھی اپنے وفد کے ہمراہ شمالی وزیرستان کا دورہ کیا تھا جہاں 2014ء میں پاکستانی فوج نے دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی شروع کر کے اسے عسکریت پسندوں سے پاک کیا ہے۔
امریکہ اور پاکستان کے تعلقات حالیہ مہینوں میں تناؤ کا شکار رہے ہیں جس کی وجوہات میں ایف سولہ لڑاکا طیاروں کی پاکستان کو فروخت میں زراعانت کا روکا جانا بھی شامل ہے اور اتحادی اعانتی فنڈ جاری نہ کرنے سے ان میں مزید کشیدگی پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔
تاہم دونوں ملکوں کے یہ عہدیدار کہتے ہیں کہ دوطرفہ تعلقات اور مختلف شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کے لیے اعلیٰ سطحی رابطے اور بات چیت کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔