پاکستان کے پارلیمان کے ایوان بالا (سینیٹ) میں حال ہی میں پیش کی گئی ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق ملک کے 60 فی صد سے زائد پینے کے پانی کے وسائل کو آلودگی اور مختلف کثافتوں کا حامل ہونے کی وجہ سے صحتِ عامہ کے لیے مضرقرار دیا گیا ہے۔
پاکستان کونسل برائے تحقیقاتِ آبی وسائل کی رپورٹ کے مطابق 2020 میں پاکستان کے چاروں صوبوں سمیت پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان میں 29 شہروں میں پینے کے پانی کا جائزہ لیا گیا جس کے مطابق اکثر شہروں میں فراہم کردہ پانی پینے کے لیے موزوں نہیں۔
وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی شبلی فراز نے بھی سینیٹ میں پینے کے پانی کے معیار کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں انکشاف کیا کہ 29 شہروں میں جائزے کے بعد معلوم ہوا ہے کہ عوام کو فراہم کردہ 61 فی صد پانی حیاتیاتی آلودگی کی وجہ سے پینے کے قابل نہیں ہے۔
سینیٹ میں پیش کردہ رپورٹ کے مطابق صوبہ سند ھ کے شہر شہید بے نظیر آباد اور میر پورخاص کا پانی 100 فی صد غیر محفوظ ہے جب کہ ملتان 94، کراچی 93، بدین 92، سرگودھا 83، حیدرآباد 80، بہاولپور 76، مظفر آباد 70 اور سکھر کا 67 فی صد پانی پینے کے لیے غیر محفوظ ہے۔
پنجاب کے شہر سیالکوٹ اور گجرات کے پانی کو پینے کے لیے محفوظ قرار دیا گیا ہے کیونکہ یہاں سے حاصل کردہ نمونوں میں کسی قسم کی کوئی کثافت نہیں پائی گئی۔
پاکستان کونسل برائے تحقیقات آبی وسائل کی 2015 کی رپورٹ میں ملک کےمختلف شہروں میں 31 فی صد پانی کو محفوظ قرار دیا گیا تھا۔
'آلودہ پانی سے بچے اور حاملہ خواتین زیادہ متاثر ہیں'
یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم کہتے ہیں پاکستان میں آلودہ پانی صحتِ عامہ کے مسائل میں اضافے کی ایک وجہ ہے ۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر جاوید اکرم نے کہا کہ پاکستان میں پینے کے پانی میں سیسہ اور آرسینک یا سنکھیا سمیت دیگر کثافتیں پانی کو آلودہ کرنے کی وجہ ہیں جس کا سب سے زیادہ شکار بچے اور حاملہ خواتین ہیں۔
ڈاکٹر جاوید اکرم کہتے ہیں کہ بعض اوقات سیسہ اور آرسینک کی پینے کے پانی میں شرح خطرناک حد سے اوپر چلی جاتی ہے اور ایسا پانی پینے سے کئی طرح کی بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں۔ ان کے بقول آلودہ پانی پینے سے بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشو نما متاثر ہوتی ہے ، ان میں خون کی کمی واقع ہو جاتی ہے ،اور اس کے ساتھ ساتھ بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت پر بھی اثر پڑتا ہے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ آلودہ پانی میں پائے جانے والے بیکٹیریا اور دیگر جراثیم معدے اور جگر کی بیماریوں اور آنتوں کی سوزش کی وجہ بھی بن رہے ہیں اور بعض اوقات بروقت علاج نہ ہونے کی وجہ سے یہ بیماریاں جان لیوا بھی ثابت ہوتی ہیں۔
ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا ہے کہ پانی کے آلودہ ہونےکے مسئلے سے نمٹ لیا جائے تو پاکستان میں متعدی اور غیر متعدی بیماریوں میں نمایاں کمی آسکتی ہے۔