رسائی کے لنکس

اسامہ پاکستان میں کیسے رہتا رہا، پیپلز پارٹی کا سوال


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

یوسف رضا گیلانی نے کہا سفیر حسین حقانی کو یہ اختیار نہیں دیا گیا کہ وہ ویزوں کے اجرا میں مروجہ طریقہ کار کو نظر انداز کر سکتے ہیں۔

پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعت پیپلز پارٹی نے ایک بیان ان خبروں کی تردید کی ہے کہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے دور حکومت میں واشنگٹن میں تعینات سفیر حسین حقانی کو مروجہ طریقہ کار کو نظر انداز کرتے ہوئے ویزے جاری کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔

جب کہ دوسری جانب پیپلز پارٹی کے سینیئر راہنما اور سابق یوسف رضا گیلانی نے جمعہ اپنے آبائی شہر ملتان میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ ویزوں کے اجرا کا معاملہ اُن کے بقول ’نان ایشو‘ ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ اصل معاملہ تو یہ ہے کہ انتہائی مطلوب القاعدہ کا سربراہ اسامہ بن لادن پاکستان میں کیسے رہتا رہا۔

"میرے اندازے کے مطابق یہ معاملہ 20 کروڑ عوام کو اصل معلومات سے محروم رکھنے کے لیے بنایا جا رہا ہے، اور اس سے توجہ ہٹانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔۔۔ میں نے قومی اسمبلی میں بھی کہا تھا کہ اسامہ بن لادن کی (پاکستان میں) موجودگی کی تحقیقات کی جائے نا کے ویزے کے طریقہ کار کو زیر بحث لایا جائے۔"

سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی طرف سے لکھا گیا ایک خط جمعرات کی شب منظر عام پر آیا تھا، جس کے مطابق بطور وزیراعظم اُنھوں نے واشنگٹن میں تعینات سفیر حسین حقانی کو یہ اختیار دیا تھا کہ وہ مروجہ طریقہ کو نظر انداز کرتے ہوئے ویزے جاری کر سکتے ہیں۔

تاہم اس کی وضاحت کرتے ہوئے یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ اُنھوں نے جو بھی خط لکھا وہ قانون کے مطابق تھا اور اُن کے بقول اس کا مقصد یہ نہیں تھا کہ حسین حقانی مروجہ طریقہ کار کو نظر انداز کر سکتے ہیں۔

’’اس خط کا مقصد وقت پر ویزوں کا اجرا تھا نا کہ طریقہ کار کو بائی پاس کرنا تھا۔‘‘

یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ اسامہ بن لادن کے خلاف جو آپریشن کیا گیا اُس میں کوئی بھی ایسا امریکی فوجی نہیں تھا جو کہ ویزا لے کر آیا ہوا۔

’’یہ واضح ہے کہ جن (خصوصی آپریشن فورسز) نے ایبٹ آباد میں آپریشن کیا تھا وہ پاکستان کی حدود میں کسی بھی ویزے پر نہیں آئے تھے۔"

امریکیوں شہریوں کے ویزے جاری کرنے کے معاملے کی باز گشت اس وقت بھی سنائی دی گئی جب مئی 2011 میں ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ یہ معاملہ رواں ماہ ایک مرتبہ پھر اس لیے زیر بحث ہے کیوں کہ واشنگٹن میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے امریکہ کے ایک موقر اخبار واشنگٹن پوسٹ میں حال ہی میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ بطور سفیر تعیناتی کے دوران امریکی عہدیداروں نے ان سے پاکستان میں انٹیلی جنس اہلکاروں کو تعینات کرنے کے لیے مدد مانگی تھی اور انہوں نے جب اس درخواست سے پاکستان کی اعلیٰ قیادت کا آگاہ کیا تو یہ درخواست منظور کر لی گئی۔

XS
SM
MD
LG