پنجاب کے ضلع رحیم یار خان میں اے ٹی ایم سے کارڈ چرانے والے مبینہ ملزم صلاح الدین کی دوران حراست ہلاکت پر پولیس افسر اور دو اہلکاروں کے خلاف اقدام قتل کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
پولیس حکام کے مطابق ملزم صلاح الدین کی ہلاکت پر ایس ایچ او تھانہ سٹی (اے ڈویژن) محمود خان سمیت تین پولیس اہلکاروں کے خلاف اقدام قتل کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
مقدمے کے حوالے سے دی گئی درخواست میں صلاح الدین کے والد نے کہا ہے کہ ایس ایچ او محمود الحسن، ایس آئی شفاعت علی اور اے ایس آئی مطلوب حسین نے تفتیش کے دوران تشدد کرکے اُن کے بیٹے کو قتل کیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ گھر والوں کو اطلاع دیے بغیر اس کا پوسٹ مارٹم کرایا گیا۔
والد نے مزید کہا کہ بیٹے کو ناحق قتل کیا گیا، اس کی ہلاکت کا علم میڈیا رپورٹ سے ہوا۔ جس کی خبر سن کر پورا گھر سکتے میں آگیا۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ تھانے کئی بار فون کیا لیکن کوئی کچھ نہیں بتا رہا تھا اور ہر بار فون بند کر دیا جاتا تھا۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ تھانے کے ایس ایچ او سمیت تمام اہلکاروں پر مقدمہ درج کیا جائے۔
وزیراعلیٰ پنجاب کے ترجمان شہباز گل کے مطابق صلاح الدین کے والد کی درخواست پر تین پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پولیس اہلکاروں کے ملوث ہونے پر قرار واقعی سزا دی جائے گی۔
صلاح الدین کی لاش لیکر ورثا اپنے آبائی علاقے روانہ ہوگئے۔
خیال رہے کہ رحیم یار خان میں اے ٹی ایم مشین سے کارڈ چوری کرنے والے مبینہ طور پر ذہنی معذور شخص کی پولیس حراست میں ہلاکت پر لوگ غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔
پاکستان میں سوشل میڈیا پر فیصل آباد کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں ایک شخص اے ٹی ایم مشین توڑنے کے بعد اس میں موجود ایک پھنس جانے والا کارڈ نکال رہا ہے۔
اور اسی واردات کے دوران یہ شخص وہاں لگے سی سی ٹی وی کیمرے پر منہ چڑاتا ہے۔
ملزم کی عجیب و غریب حرکات نہ صرف سوشل میڈیا بلکہ ملک کے تمام نجی چینلز پر بھی دکھائی گئیں۔
اس کے بعد رحیم یار خان میں بھی ملزم یہی عمل دہرا رہا تھا کہ وہاں موجود شہریوں نے اسے پہچان لیا اور پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا۔
ملزم کی شناخت بعد میں صلاح الدین کے نام سے ہوئی تھی اور ملزم نے ابتدا میں خود کو گونگا ظاہر کیا۔ ملزم نے اپنے بازو پر اپنا نام بھی کھدوا رکھا تھا۔
صلاح الدین کی ایک اور ویڈیو بھی پاکستان میں سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے جس میں پولیس اہلکار اس سے تفتیش کر رہا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ وہ مختلف اشارے کس طرح کرتا ہے۔ اس پر ملزم نے پولیس کی طرف سے پوچھے جانے پر ٹرین چلنے کے لیے مختلف اشارے کر کے بتائے، جس پر پولیس نے پوچھا کہ تم نے یہ سب اشارے کہاں سے سیکھے۔
اس پر ملزم صلاح الدین نے کہا کہ اگر مجھے مزید نہ ماریں تو ایک سوال کروں جس پر پولیس افسر کی اجازت کے بعد ملزم نے پوچھا” آپ لوگ اتنا تشدد کیسے کر لیتے ہیں، آپ نے یہ کہاں سے سیکھا ہے”۔
اس ویڈیو پر وفاقی وزیر فواد چوہدری نے ٹوئٹ میں کہا کہ تھانوں میں پولیس تشدد ایک عام سی بات ہے۔ چند ماہ پہلے پنڈ دادن خان میں ایک نوجوان کو پولیس نے شراب نوشی کے الزام میں پکڑا اور اتنا تشدد کیا کہ اس نے رہائی کے بعد خودکشی کر لی۔
انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومتیں خواب غفلت سے جاگیں یہ ظلم روکنا آپ کی ذمہ داری ہے۔
صلاح الدین کی پولیس کی زیر حراست ہلاکت پر سوشل میڈیا میں پنجاب پولیس کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ٹوئٹر پر PoliceBrutality# کے نام سے ہیش ٹیگ ٹرینڈ کر رہا ہے جس میں لوگ اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔
ایک صارف سارہ نے لکھا ہے کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا پنجاب پولیس اس سے قبل ماڈل ٹاون اور دیگر واقعات میں معصوم لوگوں کی جانیں لے چکی ہے۔
اسد بیگ نامی صارف نے اپنی ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ہم صلاح الدین سے شرمندہ ہیں۔
پولیس کا موقف
دوران حراست ملزم کی ہلاکت پر پولیس کا مؤقف ہے کہ بینک انتظامیہ کی مدعیت میں اس کے خلاف مقدمہ درج کرکے تفتیش کی جارہی تھی۔ ملزم نے اپنے ہاتھ پر اپنا پورا نام اور پتہ انمٹ سیاہی سے کنندہ کروا رکھا تھا۔
حکام کے مطابق ملزم نے پکڑے جانے پر خود کو گونگا بہرہ ظاہر کیا مگر دوران تفتیش متعدد وارداتوں کا اعتراف بھی کیا۔
پولیس کا کہنا تھا کہ صلاح الدین حوالات میں اوٹ پٹانگ حرکتیں کر رہا تھا کہ اچانک بے ہوش ہوگیا۔ صلاح الدین کو شیخ زید اسپتال پہنچایا گیا تاہم اسپتال پہنچنے سے قبل اس کی موت واقع ہو چکی تھی۔
رحیم یار خان پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے شیخ زید اسپتال منتقل کرتے ہوئے ورثا کی تلاش شروع کر دی گئی ہے۔
پولیس کے مطابق بظاہر ملزم کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی ہے تاہم پوسٹ مارٹم رپورٹ سامنے آنے کے بعد اصل وجہ سامنے آئے گی۔
دوسری جانب پنجاب حکومت نے بھی ملزم کی پولیس حراست میں ہلاکت پر تحقیقات کا حکم دیا ہے۔