رسائی کے لنکس

غیر قانونی تارکینِ وطن؛ پشاور ہائی کورٹ کی افغان فنکاروں کو ہراساں نہ کرنے کی ہدایت


پشاور ہائی کورٹ نے پاکستان میں پناہ گزین افغان فنکاروں اور گلوکاروں کو ہراساں نہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔

جمعرات کو پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس عبد الشکور اور جسٹس ارشد علی پر مشتمل بینچ نے افغان فنکاروں کی درخواست پر حکام کو ہدایت جاری کی۔

افغان فنکاروں رفیع حنیف، حشمت اللہ امیدی اور حمید شہدائی نے پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت وکیل ممتاز احمد خان کے ذریعے درخواست دائر کی تھی۔

درخواست میں حکومت، وزارتِ داخلہ، نادرا، ڈی جی امیگریشن اور وفاقی تفتیشی ادارے (ایف آئی اے) کو فریق بنایا گیا تھا۔ درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ افغانستان کے موجودہ حالات میں ان کے لیے اپنے ملک میں رہنا ممکن نہیں، لہٰذا انہیں پاکستان میں پناہ فراہم کی جائے۔

جمعرات کو عدالتی فیصلے میں مزید کہا گیا کہ عارضی پناہ کے خواہش مند فنکاروں کو ہراساں نہ کیا جائے۔

دورانِ سماعت عدالت نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مؤقف سے متعلق استفسار کیا۔

وفاقی حکومت کی جانب سے ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ حکومت کے فیصلے کے تحت صرف رجسٹرڈ افغان باشندوں کو پاکستان میں عارضی طور پر رہائش کی اجازت ہے۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل کا مزید کہنا تھا کہ غیر قانونی طور پر رہائش پذیر تمام غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے کی کارروائیاں جاری ہیں۔ تاہم عدالت نے درخواست گزاروں کے بارے میں حکومت کو جواب داخل کرانے کی ہدایت کی جس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے مزید مہلت مانگ لی۔

پاکستان سے غیر قانونی مہاجرین کی بے دخلی
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:33 0:00

عدالت نے سماعت ملتوی کرتے ہوئے سماعت مکمل ہونے تک درخواست گزاروں کو گرفتار یا ہراساں نہ کرنے کی ہدایت کر دی۔

واضح رہے کہ 2021 میں افغانستان میں طالبان کے کنٹرول کے بعد بڑی تعداد میں مہاجرین پاکستان آ گئے تھے۔ ان میں فنکار، صحافی اور گلوکار بھی شامل تھے۔

ان افراد کا مؤقف ہے کہ طالبان کی سخت گیر پالیسیوں کی وجہ سے اُن کے لیے افغانستان میں رہنا مشکل ہے۔ لہذٰا اُنہیں پاکستان میں عارضی پناہ فراہم کی جائے۔

درخواست گزاروں کے وکیل ممتاز احمد خان نے عدالت کو بتایا کہ اُن کے موکلوں کو پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ہراساں کر رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ممتاز احمد ایڈووکیٹ نے بتایا کہ یہ فنکار اس لیے واپس نہیں جانا چاہتے کیوں کہ طالبان نے افغانستان میں موسیقی اور ذرائع ابلاغ پر مختلف پابندیاں لگا دی ہیں۔

اُن کے بقول طالبان نے اقتدار میں آنے کے بعد کئی فنکاروں، موسیقاروں، صحافیوں، شاعروں اور ادیبوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں بھی ڈالا ہے۔

افغان طالبان پر ماوورائے عدالت ہلاکتوں کے بھی الزامات لگتے رہے ہیں، تاہم طالبان حکومت ایسے الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔

طالبان حکومت کا مؤقف رہا ہے کہ وہ شریعت کے تحت فیصلے کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ حکومتِ پاکستان نے غیر قانونی تارکینِ وطن کو ملک چھوڑنے کے لیے یکم نومبر تک کی مہلت دی تھی۔ یہ فیصلہ گزشتہ ماہ کے آغاز میں پاکستان کے سول و فوجی حکام پر مشتمل اپیکس کمیٹی کے اجلاس کے دوران کیا گیا تھا جس میں پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر بھی شریک تھے۔

پاکستان نے الزام لگایا تھا کہ ملک میں دہشت گردی کے بیشتر واقعات میں افغان شہری ملوث ہیں، لہذٰا غیر قانونی تارکینِ وطن کو یکم نومبر کو ملک بدر کر دیا جائے گا۔

طالبان حکومت نے پاکستان کی جانب سے غیر قانونی تارکینِ وطن کو ملک بدر کرنے کے فیصلے پر تنقید کی تھی جب کہ افغان شہریوں کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزامات کو بھی مسترد کیا تھا۔

فورم

XS
SM
MD
LG