پاکستان کے شمال مغر بی صوبے خیبر پختونخواہ کے دارالحکومت پشاور کی جیل میں قید ایک لڑکے سے مبینہ جنسی زیادتی کے واقعہ پر تین جیل اہلکاروں سمیت پانچ افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
پولیس کے مطابق لڑکے نے جوڈیشل میجسٹریٹ کے سامنے ایک تحریری بیان میں اپنے ساتھ ہونے والی مبینہ جنسی زیادتی کے واقعہ کی شکایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس میں جیل کے قیدی اور اہلکار بھی ملوث ہیں جس پر سیشن جج کی طرف سے ایک تحریری حکم پر مقدمہ درج کر لیا گیا۔
پشاور کے شرقی تھانے کے اہلکار میر سلطان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرے ہوئے کہا کہ" اس (لڑکے) نے اس وقت کہا کہ ایک قید ی ہے جو جیل میں 75 نمبر کے قیدی کے نام سے مشہور ہے اس قیدی نے سیار اور انور دین جو چکی کے انچارج ہیں اور اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ جیل کو چھ ہزار روپے دیے تھے اور ان کے کہنے پر اسے قیدی نمبر 75 کی بیرک میں رات کو ڈالا گیا جس نے زبردستی اس کےساتھ جنسی زیادتی کی"۔
میر سلطان نے مزید بتایا کہ پولیس نے اس واقعہ میں ملوث پشاور جیل کے دو قیدیوں کو تحویل میں لے کر مقدمے کی تفتیش شروع کر دی ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ خیبر پختونخواہ کے مختلف جیلوں میں تین سو سے زائد بچے قیدہیں اور ان میں سے 105 بچے صرف پشاور جیل میں ہیں۔ ا ن میں سے ایک بڑی تعداد ان بچوں کی ہے جن کے مقدمات ابھی عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔
پاکستان میں بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم ایک غیرسرکاری تنظیم "سپارک"سے وابستہ فاطمہ ناصر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قانون کے مطابق 18 سال سے کم عمر ملزم بچوں کے لیے الگ جیلیں ہونی چاہیے۔
" قانون کی نظر میں 18 سال سے کم عمر کے ملزموں کو نابالغ تصور کیا جاتا ہے قانونی طور پر ان کو الگ جیلوں میں رکھنا ضروری ہے اور ان کے لیے الگ جیل کا نظام ہونا چاہیے تاہم صوت حال یہ ہے جب بچوں کو (کسی جرم میں ) پکڑا جاتا ہے تو ان کو اسی جیل میں رکھا جاتا ہے جہاں دیگر قیدی ہوتے ہیں اور ان کو سزا کے بعد بھی وہیں رکھا جاتا ہے جہاں ان کے ساتھ استحصال اور زیادتی ہوتی ہے"۔
فاطمہ ناصر کا کہنا ہے کہ جہاں یہ ضروری ہے کہ ان بچوں کے لیے الگ جیلیں ہوں وہاں یہ بھی اشد ضروری ہے کہ ان کی بحالی کی طرف بھی توجہ دی جائے تاکہ جیل سے رہا ہونے کے بعد وہ خود کو معاشرے کا حصہ سمجھتے ہوئے صحت مند رویے اختیار کریں۔