ترقی پذیر معاشروں میں ایسے لوگوں کی مثال بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے جو یورپ جا کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کریں، سائنسدان بنیں مگر پھر واپس اسی مٹی کا رُخ کریں جہاں سے وہ تعلق رکھتے ہیں۔۔۔ پیرزادہ قاسم کا شمار ایسے ہی چند مٹھی بھر لوگوں میں کیا جا سکتا ہے، جنہوں نے وطن اور اپنی زبان سے محبت کی خاطر 60ء کی دہائی میں برطانیہ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اس وجہ سے پاکستان واپسی کا قصد باندھا کہ شاید برطانوی معاشرے میں بڑے ہو کر ان کی تین برس کی بیٹی وہ زبان نہ بول سکے جو وہ خود بولتے ہیں یا جو ان کے والدین بولتے تھے۔۔۔
پیرزادہ قاسم سمجھتے ہیں کہ ادبی و علمی ورثہ اگلی نسل تک منتقل کیے بغیر معاشروں میں ایسے ’روبوٹس‘ تیار ہوتے ہیں جو اچھے ڈاکٹر اور اچھے انجینئیر تو ہو سکتے ہیں مگر انہیں مکمل شخصیت کہنا غلط ہوگا۔۔۔ ہمیں ’رچی بسی‘ شخصیات کی ضرورت ہے نہ کہ اکہری شخصیات کی۔۔۔ ہمیں ایسا معاشرہ چاہیئے کہ جہاں افراد کو شعر و ادب سے دلچسپی ہو اور جو اچھے شعر پر داد دے سکیں اور اچھی تحریر کی پرکھ رکھتے ہوں۔۔۔
پیرزادہ قاسم پاکستان میں شعبہ ِتدریس کی ایک قابل ِقدر شخصیت کے طور پر نمایاں سمجھے جاتے ہیں۔ وہ 1960ء سے جامعہ کراچی کے شعبہ فزیالوجی سے منسلک رہے۔ بعد میں انہوں نے جامعہ کراچی کے وائس چانسلر کے طور پر بھی فرائض انجام دئیے۔۔۔ پیرزادہ قاسم آجکل ضیاء الدین یونیورسٹی میں بطور وائس چانسلر اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
’سائنس سے اردو شاعری تک کا سفر کیسا رہا؟‘۔۔۔ پیرزادہ قاسم کہتے ہیں کہ، ’یہ سفر بہت آسان تھا، کیونکہ شاعری میری پہلی محبت ہے‘۔۔۔ پیرزادہ قاسم نے اپنے ادبی سفر کے بارے میں مزید کیا کہا، اس کی تفصیلات وڈیو رپورٹ میں دیکھیئے۔۔۔