امریکی ریاست اوکلاہاما کے ایک شہر پیچر (PICHER) میں کئی برسوں سے بھوتوں کا بسیرا ہے۔ 20 ہزار سے زیادہ آبادی کے اس قصبے میں اب شاید ہی کوئی انسان باقی رہا ہوگا۔ سن 2009 میں وفاقی حکومت نے وہاں کے تمام رہائشیوں کو معاوضے کے چیک دے کر انہیں شہر چھوڑ دینے کی ہدایت کی تھی۔
اگر آپ کو پیچر جانے کا اتفاق ہو تو وہاں آپ کو خاموش سڑ کیں اور گلیاں دکھائی دیں گی۔ بازار اور خریدو فروخت کے مرکز نظر آئیں گے۔ آپ یہ بھی دیکھیں گے کہ کئی دکانوں کے شو کیسوں میں چیزیں سجی ہوئی ہیں۔ کئی دکانوں کے دروازے کھلے نظر آئیں گے۔ لیکن وہاں کوئی دکاندار ہے اور نہ خریدار ۔ ایک ہو کا عالم ہے۔ خاموشی ہے یا کبھی کبھار ہوا کے جھونکے کی سرسراہٹ ماحول کو مزید پراسرار بنا دیتی ہے۔
آپ کو قصبے کے وسط میں ٹاؤن ہال کی سنسان عمارت نظر آئے گی۔ یہ وہ مقام ہے 2009 کے آخر میں رخصت ہونے سے پہلے مقامی لوگوں کی ملاقات ہوئی تھی اور انہوں نے ایک دوسرے کو ڈبڈبائی نظروں سے دیکھا تھا۔ کچھ فاصلے پر آپ کو اسکول کی عمارت اور اس کا فٹ بال کا گراؤنڈ دکھائی دے گا۔ اسکول کے برآمد وں میں گہری خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ کمروں کی کھڑکیاں اور دروازے ٹوٹے ہوئے ہیں۔ یہاں کبھی بچوں کے قہقہے گونجا کرتے تھے۔ اسکول کے ہال میں مئی 2009 میں گریجوایٹ ہونے والے طالب علموں میں اسناد تقسیم کرنے کی آخری تقریب ہوئی تھی۔
قریب ہی گرجا گھر کی عمارت ہےجس کی دیکھ بھال کرنے والا اور وہاں بیٹھ کر عبادت کرنے والا اب کوئی باقی نہیں رہا۔ اسکول کے عقب میں کئی ایکڑوں پر پھیلا ہوا راکھ کا ڈیڑھ سو فٹ بلند ڈھیر ہے۔ جس کے گرد اب لوہے کی سنگلاخ باڑ لگا دی گئی ہے۔ قصبے کی بربادی کا آغاز اسی راکھ سے ہوا۔
آپ کو پیچر میں بجلی کے کھمبے، سٹریٹ لائٹس، تاریں اور عمارتوں کو جاتے کنکشن نظر آئیں گے ۔ لیکن کسی گھر میں کوئی بلب روشن دکھائی نہیں دے گا۔ اکثر گھروں کے دروازے چوپٹ کھلے پڑے ہیں۔ بہت سے گھروں میں تو آپ کو سامان بھی پڑا نظر آئے گا۔ کچن میں بھی کچھ چیزیں مل جائیں گی ۔ کتے بلیاں اور کئی چھوٹے بڑے جنگلی جانور بھی دکھائی دیں گے ۔ لیکن کوئی انسان نظر نہیں آئے گا۔
جب آپ قصبے کے ان علاقوں میں جاتے ہیں جہاں ندی نالے اور چھوٹے چھوٹے جوہڑ اور تالاب موجود ہیں تو آپ کو ان کے کنارے خون کی طرح سرخ دکھائی دیں گے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ رنگت سیسہ، جست اور دوسری معدنيات کے کیمیائی عمل کی دجہ سے ہے۔ لیکن کچھ لوگ دبے لفظوں میں یہ کہتے ہیں کہ یہ جنگوں میں مارے جانے والوں کا خون ہے۔ شاید آپ کو یہ جان کر حیرت ہو کہ پہلی جنگ عظیم میں گولیوں اور بموں سے مارے جانے والے آدھے سے زیادہ لوگوں کا خون پیچر کے سر ہے۔
اس علاقے میں 1914 میں سیسہ اور جست کی بہت بڑے ذخائر دریافت ہونے کے بعد یہاں کان کنی شروع ہوئی اور خام دھات صاف کرنے کے کارخانے قائم ہو گئے۔ پہلی جنگ عظیم میں گولا بارود کے لیے ان دھاتوں کی مانگ میں تیزی سے اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں یہاں سینکڑوں کانیں کھو دی گئیں اور مزوروں کی چھوٹی سی بستی پیچر 20 ہزار آبادی کے ایک بڑے شہر میں تبدیل ہوگئی۔
اس دور میں کانوں کے گرد 7 ہزار ایکڑ سے زیادہ رقبے پر خام دھاتوں کے پہاڑ کھڑے ہو گئے ۔ یہاں کی فیکٹر یاں روزانہ تقربیاً 5 ہزار ٹن خام مواد کو صاف کرتی تھیں جس سے علاقے میں جگہ جگہ فیکٹریوں کی جلی ہوئی راکھ کے پہاڑ بننے لگے۔ مقامی انتظامیہ نے راکھ کو ٹھکانے لگانے کے لیے انہیں سٹرکوں ، فٹ پاتھوں اور دیگر تعمیراتی منصوبوں میں استعمال کرنا شروع کر دیا۔
اسی دوران پتا چلا کہ پیچر کے بچے تیزی سے دماغی امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں اور ان کی پڑھنے لکھنے اور سیکھنے کی صلاحیت گھٹتی جا رہی ہے۔ ڈاکٹروں کی ٹیموں نے جب متاثرہ بچوں کے ٹیسٹ لیے تو ان کے خون میں سیسے کے زہریلے اجزا خطرناک حد تک موجود تھے۔
80 کے عشرے میں حکومت نے شہر کی صفائی کا ایک بڑا منصوبہ شروع کیا اور کار خانوں کے فضلے کو مقررہ جگہوں پر ڈھیر کرکے ان کے گرد باڑیں لگا دیں۔ لیکن زہریلے گردوغبار کے مضر اثرات میں قابل ذکر کمی نہ ہو سکی۔ اسی دوران بارشوں سے سیسے کے زہریلے اجزا زیر زمین پانی میں شامل ہوگئے۔
90 کے عشرے میں پیچر کے دو تہائی سے زیادہ بچے سیسے کے زہر سے منسلک بیماریوں میں مبتلا تھے اور ان کے صحت یاب ہونے کا کوئی امکان نہیں تھا کیونکہ سیسے کے زہریلے اجزا کبھی جسم سے خارج نہیں ہوتے۔
2006 میں ماہرین نے خبردار کیا کہ کان کنی اور کئی دیگر خلاف ضابطہ کارروائیوں کی وجہ سے شہر کی بنیادیں کمزور پڑ گئی ہیں اور وہ کسی بھی وقت زمین بوس ہو سکتا ہے۔ محض دو سال کے بعد 2008 میں باد و بارا ں کے ایک طاقت ور طوفان نے شہر کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا۔ اکثر عمارتیں گر گئیں یا ان کو شدید نقصان پہنچا۔ اس طوفان میں متعدد افراد ہلاک اور سینکڑوں افراد زخمی ہو ئے۔ شہر کی زہریلی فضا اور زمینی صورت حال کے پیش نظر تعمیر و مرمت سرمائے اور وقت کا ضیا ع تھا، چنانچہ مقامی آبادی نے ٹاؤن ہال اجلاس میں شہر خالی کرنے کے حق میں ووٹ دیا۔ اگلے سال پولیس اسٹیشن بند ہوا۔ پھر ڈاک خانہ بند ہونے کی باری آئی ۔ آخر میں اسکول بھی بند کر دیا گیا اور پھر مقامی لو گ اپنے پیچھے ایک صدی کی یادیں چھوڑ کر رخصت ہو گئے۔
ایک تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے سال کے شروع میں پیچر کے مختلف جوہڑوں اور تالابوں کے کنارے ایک ہزار سے زیادہ پرندے مردہ پائے گئے۔ یہ وہ بد قسمت پرندے تھے، جو کسی اور مقام کی جانب جاتے ہوئے رات گذارنے کے لیے وہاں اترے تھے اور پیاس بجھانے کے لیے پانی پیا تھا۔