رسائی کے لنکس

ڈی این اے تجزیے میں ’چھ سے آٹھ دن لگ سکتے ہیں‘


پاکستان کی قومی ائیر لائن ’پی آئی اے‘ کے گر کر تباہ ہونے والے مسافر طیارے میں سوار افراد کی لاشوں کی شناخت کا عمل جاری ہے اور اس عمل کے لیے جمعرات کی صبح لاشیں ایبٹ آباد کے ایوب میڈیکل کمپلیکس سے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے اسلام آباد پہنچائی گئیں۔

جب کہ وزیراعظم نواز شریف نے طیارے حادثے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کی ہدایت دی ہے۔ جمعرات کو متعلقہ حکام کے اجلاس میں وزیراعظم نے کہا کہ یہ اہم ہے کہ کم سے کم وقت میں سچ کو عوام کے سامنے لایا جائے۔

اُنھوں نے کہا کہ پاکستان ائیر فورس کے سینئر افسر کو انکوائری کمیٹی میں شامل کیا جائے۔

اسلام آباد کے اُمور سے متعلق وزیر مملکت طارق فضل چوہدری نے کہا ہے کہ ایوب میڈیکل کمپلیکس میں صرف پانچ افراد کی لاشوں کی شناخت ہو سکی ہے اور جنید جمشید سمیت بقیہ لاشوں کی ’ڈی این اے‘ تجزیے سے شناخت میں چھ سے آٹھ دن لگ سکتے ہیں۔

ڈاکٹروں کے مطابق حادثے کے مقام سے ملنے والے اعضاء کی شناخت ’ڈی این اے‘ تجزیے کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

طارق فضل چوہدری کا کہنا تھا کہ یہ یقیناً ایک تکلیف دہ انتظار ہے لیکن اُن کے بقول اس کے سوا کوئی اور چارہ نہیں ہے۔

’’ہم سب یہ تمام رشتے رکھتے ہیں اور ہم ان کے دکھ اور درد کو محسوس کرتے ہیں لیکن مجھے افسوس ہے یہ بات کہتے ہوئے کہ ڈی این اے ٹیسٹ میں ہمیں چھ سے آٹھ دن لگ سکتے ہیں ۔۔۔ کیونکہ 42 میتیں نا قابل شناخت ہیں اور ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ انہیں ان کے اپنے ہی لواحقین کے حوالے کیا جائے۔‘‘

وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ طیارے میں سوار معروف نعت خواہ جنید جمشید کی لاش کی شناخت بھی ڈی این ٹیسٹ کے بعد ہی ممکن ہو سکے گی۔

حکام کے مطابق ایبٹ آباد سے لاشوں کی اسلام آباد منتقلی میں تاخیر کی وجہ موسم کی خرابی بنی کیوں کہ صبح کے وقت دھند کے باعث ہیلی کاپٹر بر وقت ایبٹ آباد نہیں پہنچ سکے۔

لیکن اس تاخیر نے طیارے حادثے میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کی مشکلات مزید بڑھا دیں۔

حادثے میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین میں سے بعض صبح ہی سے اسلام آباد کے پمز اسپتال میں جمع تھے، اُن کا شکوہ تھا کہ متاثرہ خاندانوں کی مناسب رہنمائی نہیں کی جا رہی ہے۔

حادثے کا شکار ہونے والے ’پی آئی اے‘ کے طیارے میں سوار ایک مسافر گوہر علی کا تعلق صوبہ خیبر پختونخواہ کے پہاڑی علاقے مالاکنڈ سے تھا۔ اُن کے کزن محمد پرویز نے پمز اسپتال کے احاطے میں کہا کہ ’’ہمیں راستہ ہی نظر نہیں آ رہا کہ کیا کریں اور کیا نا کریں‘‘، اُن کے بقول جب تک یہ واضح نہیں ہو جاتا کہ اُنھیں اپنے کزن کی میت کب ملے گی اُس وقت تک اُن کے خاندان کے لیے یہ تکلیف برقرار رہے گی۔

جمعرات کو ملک میں فضا عمومی طور پر سوگوار رہی اور ذرائع ابلاغ میں بھی دن بھر اس حادثے سے متعلق خبر نشر ہوتی رہیں۔ جب کہ اس فضائی حادثے کی مکمل تحقیقات کے مطالبات بھی سامنے آئے ہیں۔

​اجمل خٹک اور محمد خالد نامی دو افراد نے اسلام آباد کی ایک مارکیٹ میں وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ محض ’انکوائری‘ کا اعلان کافی نہیں ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ اس بات کی بھی تصدیق ہونی چاہیئے اڑان بھرنے سے قبل طیارے میں کوئی فنی خرابی نہیں تھی۔

اُدھر ’پی آئی اے‘ کے چیرمین اعظم سہگل کا کہنا تھا کہ حادثے کا شکار ہونے والے طیارے میں کوئی خرابی نہیں تھی۔

فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ’آئی ایس پی آر‘ کے مطابق ایبٹ آباد سے لاشوں کی اسلام آباد اور ’سی ایم ایچ‘ اسپتال راولپنڈی منتقلی کے لیے تین فوجی ہیلی کاپٹر استعمال کیے گئے، جب کہ اس کے علاوہ جس مقام پر یہ حادثہ پیش آیا، اُسے فوج کے اہلکاروں کے گھیرے میں لے لیا ہے۔

واضح رہے کہ چترال سے اسلام آباد آنے والا مسافر طیارہ صوبہ خیبر پختونخواہ کے علاقے حویلیاں کے قریب ایک پہاڑی مقام میں بدھ کی سہ پہر گر کر تباہ ہو گیا تھا اور اس سوار مسافروں و عملے سمیت تمام 47 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

’پی آئی اے‘ کے مطابق اے ٹی آر 42 ساخت کے اس طیارے پر 42 مسافر سوار تھے جن میں 31 مرد، نو خواتین اور دو بچے شامل تھے، مسافروں میں دو آسٹریلوی اور ایک چینی شہری بھی شامل تھا۔ جب کہ اس کے علاوہ طیارے پر عملے کے پانچ افراد بھی سوار تھے۔

XS
SM
MD
LG