سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو کے ساحلی علاقے سے جلے ہوئے پلاسٹک کے ٹکڑے صاف کرنے کی مہم جمعے کے روز بھی جاری رہی، جو سمندر میں کھڑے ایک جلتے ہوئے مال بردار بحری جہاز سے ٹوٹ کر بہتے ہوئے ساحل پر پہنچ رہے ہیں۔
ایم وی ایکس۔پریس پرل نامی سنگاپور کے اس جہاز سے کالے دھوئیں کے گہرے بادل بلند ہو رہے ہیں، جسے بچانے کی بین الاقوامی کوششیں جاری ہیں۔ یہ خدشہ ہے کہ کولمبو کی بندرگاہ سے کچھ فاصلے پر کھڑے اس جہاز کے ڈوبنے سے اس میں موجود 278 ٹن تیل پانی کی سطح پر پھیل سکتا ہے، جس سے ساحلی علاقے اور سمندری حیات کے سنگین مسائل جنم لے سکتے ہیں۔
جمعے کے روز جہاز کو بچانے کی کوششیں اپنے 9ویں روز میں داخل ہو گئی تھیں۔
حفاظتی لباس میں ملبوس نیوی کے اہل کار کولمبو سے تقریباً 40 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ساحلی تفریح گاہ نیگومبو سے جلے ہوئے تیل اور دیگر آلائشوں سے اٹے پلاسٹک کے لاکھوں ٹکڑے چننے میں مصروف ہیں۔
نیگومبو کی ساحلی تفریح گاہ مچھلی کے شکار کی وجہ سے سیاحوں کے لیے بڑی کشش رکھتی ہے، لیکن اب اسے لوگوں کی آمد ورفت کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ یہاں سمندر کے کنارے سے پانیوں میں دور کھڑے ہوئے جہاز کو دیکھا جا سکتا ہے جس پر سے دھوئیں کے بادل فضا میں بلند ہو رہے ہیں۔
کارکن بلڈوزروں کی مدد سے پولی تھن کے ان ٹکڑوں کو اٹھا رہے ہیں جن کا وزن ٹنوں میں پہنچ چکا ہے۔ یہ پلاسٹک جہاز پر لدے ان آٹھ کنٹینروں میں تھا جو منگل کے روز سمندر میں گر گئے تھے۔
عہدے داروں نے بتایا ہے ان کی معلومات کے مطابق جہاز پر پلاسٹک کے 28 کنٹینز لادے گئے تھے ۔ یہ خام پلاسٹک مصنوعات کی پیکنگ کرنے والے کارخانوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔
مال بردار جہاز میں آگ 20 مئی کو اس وقت لگی، جب وہ کھلے سمندر میں کولمبو کی بندرگاہ میں داخلے کی اجازت ملنے کا انتظار کر رہا تھا۔
اطلاعات کے مطابق جہاز پر 1500 کنٹینر لدے ہیں جن میں 25 کنٹینروں میں نائٹرک ایسڈ ہے جب کہ باقی ماندہ میں نامعلوم مقدار میں ایتھنول اور پٹرولیم مصنوعات ہیں ۔
سری لنکا کے سمندری ماحول سے متعلق ادارے ایم اے پی اے کے حکام کا خیال ہے کہ جہاز میں آگ نائیٹرک ایسڈ کے لیک ہونے سے لگی۔ یہ واقعہ 11 مئی کو پیش آیا تھا، جس کا جہاز کے عملے کو علم تھا۔
ایم اے پی اے کی چیئرمین دھرشنی لہند پورا کا کہنا ہے کہ جہاز کا عملہ لیک کرنے والے کنٹینروں کو سمندر میں پھینک کر یا انہیں اس بندرگاہ پر اتار کر جہاں سے انہیں لوڈ کیا گیا تھا، اس تباہی سے بچ سکتا تھا۔
دھرشنی نے خدشہ ظاہر کیا کہ سری لنکا کے ساحلی علاقے کو تیل سے آلودہ ہونے کے خطرے کا سامنا ہے کیونکہ مون سون کی تیز ہواؤں کی وجہ سے جہاز پوری طرح شعلوں کی لپیٹ میں آ چکا ہے اور وہ ٹوٹ کر بکھر سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب جہاز میں آگ بھڑکی تو اس پر 278 ٹن تیل اور 50 ٹن پٹرول موجود تھا۔
سری لنکا کی نیوی نے جمعرات کے روز کہا کہ آگ ٹھنڈی پڑنے میں کئی دن لگ سکتے ہیں۔
آگ بجھانے کے لیے بین الاقوامی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ بھارت کے چار بحری جہاز ان کوششوں میں سری لنکا کی مدد کر رہے ہیں جب کہ امدادی کارروائیوں کی قیادت ایک ڈچ کمپنی ایس ایم آئی ٹی کر رہی ہے۔
مال بردار جہاز کے 25 رکنی عملے کو منگل کے روز نکال لیا گیا تھا جن میں سے دو معمولی زخمی ہیں۔