پاکستان کے وزیرِ اعظم نواز شریف عدالت عظمٰی کے حکم پر پاناما لیکس کے معاملے کی تحقیقات کرنے والی چھ رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سامنے جمعرات کو پیش ہوئے۔
تقریباً تین گھنٹے تک 'جے آئی ٹی' کے سامنے موجود رہنے کے بعد جب وزیراعظم نواز شریف واپس روانہ ہونے لگے تو اُنھوں نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں کہا کہ انہوں نے، ان کی حکومت اور سارے خاندان نے اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کر دیا ہے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا، "اب ہم تاریخ کا پہیہ پیچھے کی طرف نہیں موڑنے دیں گے۔۔۔ وہ زمانے گئے جب سب کچھ پردوں کے پیچھے چھپا رہتا تھا، اب کٹھ پتلیوں کے کھیل نہیں کھیلے جا سکتے۔"
اُنھوں نے کہا کہ وہ یہاں اس لیے پیش ہوئے ہیں کہ ان کے بقول وزیراعظم سمیت ہم سب قانون اور انصاف کے سامنے جواب دہ ہیں۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ مخصوص ایجنڈے چلانے والی فیکٹریاں اگر بند نہ ہوئیں تو آئین اور جمہوریت ہی نہیں ملک کی سلامتی بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ان کے تمام اثاثوں اور وسائل کا تمام ریکارڈ پہلے ہی سے اداروں کے پاس موجود ہے اور اب تک ان پر کوئی الزام ثابت نہیں ہوا ہے۔
اس سے قبل جمعرات کو جب 'جے آئی ٹی' کے سامنے پیشی کے لیے وزیراعظم نواز شریف فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی پہنچے تو اُن کے ہمراہ معمول کا 'پروٹوکول' نہیں تھا۔
وزیراعظم کے ہمراہ ان کے چھوٹے بھائی اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور وزیراعظم کے بڑے صاحبزادے حسین نواز بھی تھے۔
جوڈیشل اکیڈمی روانگی سے قبل وزیراعظم نواز شریف نے ایوانِ وزیرِاعظم میں اپنے قریبی ساتھیوں سے مشاورت کی تھی جن میں وزیر دفاع خواجہ آصف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور سابق وزیراطلاعات پرویز رشید شامل تھے۔
تحقیقاتی ٹیم کی طرف سے وزیراعظم نواز شریف کو اپنے مالی معاملات سے متعلق ریکارڈ اور دستاویزات بھی ساتھ لانے کو کہا گیا تھا۔
وزیراعظم کی پیشی کے موقع پر جوڈیشل اکیڈمی کے اردگرد سکیورٹی انتہائی سخت تھی۔
حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے کارکن اور رہنما بھی اس موقع پر موجود تھے، جو وزیراعظم کے حق میں نعرے لگاتے رہے۔
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم اسلام آباد میں واقع فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے اور اس کی سربراہی وفاقی تحقیقاتی ادارے ’ایف آئی اے‘ کے ایڈیشنل ڈائریکٹر ضیا احمد کر رہے ہیں۔
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم میں پاکستان اسٹیٹ بینک، سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن، قومی احتساب بیورو (نیب) اور فوج کے دو انٹیلی جنس اداروں، آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس، کے نمائندے بھی شامل ہیں۔
سپریم کورٹ نے 20 اپریل کو پاناما پیپرز کے معاملے پر فیصلہ سناتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف کے بچوں کے غیر ملکی اثاثوں کی مزید تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا حکم دیا تھا۔
اس کمیٹی کو اپنا کام مکمل کرنے کے لیے 60 روز کا وقت دیا گیا ہے، جس میں سے ایک ماہ سے زائد کا وقت گزر چکا ہے۔
وزیراعظم نواز شریف کے بڑے بیٹے حسین نواز پانچ مرتبہ جب کہ چھوٹے بیٹے حسن نواز دو مرتبہ 'جے آئی ٹی' کے سامنے پیش ہو چکے ہیں، جن سے کئی گھنٹوں تک پوچھ گچھ کی گئی۔