صفدر خان آج سے ايک ہفتہ قبل تک پاکستان ميڈيکل اينڈ ڈينٹل کونسل ميں بطور کی پنچ آپريٹر کام کر رہے تھے۔ رواں ماہ کی 21 تاريخ کو وہ حسب معمول اسلام آباد ميں قائم اپنے دفتر پہنچے تو انہوں دفتر کو سيل پايا۔
معلومات پر پتا چلا کہ صدر پاکستان کی جانب سے ايک آرڈيننس کے ذریعے ان کا محکمہ تحليل کر ديا گيا ہے جس کے ساتھ ہی 300 کے قريب ملازمين بھی نوکری سے فارغ کر دیے گئے ہيں۔
پاکستان ميڈيکل اينڈ ڈينٹل کونسل تحليل
گزشتہ اتوار کو پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی کے دستخط کے بعد سے پاکستان ميڈيکل اينڈ ڈينٹل کميشن آرڈيننس نافذ کرديا گیا جس کے ساتھ ہی پاکستان ميڈيکل اينڈ ڈينٹل کونسل کو تحليل ہو گئی ہے۔
وزير اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کے مطابق ميڈيکل کالجز اور ڈاکٹرز کو ريگوليٹ کرنے کے لیے پاکستان ميڈکل کميشن آرڈيننس متعارف کيا گيا ہے۔ اب ادارے کی مکمل تشکيل نو کی جائے گی۔
انہوں نے زور ديا کہ حکومت کے اس اقدام سے طب کی تعليم ميں ترقی ہوگی۔
ياد رہے کہ حکومت نے ايک ايسے وقت ميں اس آرڈيننس منظور کيا ہے جب اس سے پہلے پی ايم ڈی سی کا نيا آرڈيننس سينيٹ ميں اپوزيشن نے مسترد کر ديا تھا۔
ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ حکومتی اقدام سے طب کا شعبہ بری طرح متاثر ہو گا تاہم ظفر مرزا ڈاکٹرز اس سے بات سے اتفاق نہیں کرتے۔
حکومت اپنے موقف پر قائم
اسلام آباد ميں ايک پريس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزير اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ پاکستان ميں 168 ميڈيکل کالجز ہيں جب کہ 1962 ميں ملک ميں ايک بھی پرائيویٹ کالج نہیں تھا۔
انہوں نے خصوصی طور پر پچھلے 15 سال ميں کھلنے والے پرائيویٹ کالجز کے بارے ميں تشويش کا اظہار کيا۔
انہوں نے بتايا موجودہ ريگوليٹری باڈی، پی ايم ڈی سی اتنے سارے کالجز کے ساتھ قدم ملا کر نہ چل سکی۔ لوگوں کی جانب سے پی ايم ڈی سی کی سست روی، کرپشن اور غير تسلی بخش کردار کے بارے ميں بہت شکايات سامنے آتی رہی ہیں۔
ظفر مرزا نے مزيد کہا کہ اسی وجہ سے حکومت کو نيا ليگل فريم ورک دينے کی ضرورت ہوئی تاکہ ملک ميں ميڈيکل کی تعليم اور ميڈيکل پروفيشنلز اور ادارے، امتحانات، لائسنسنگ کا سسٹم موجودہ وقت کے تقاضوں کے مطابق قائم کيا جا سکے۔
نيشنل ميڈيکل کميشن اتھارٹی
پاکستان ميڈيکل اينڈ ڈينٹل کونسل پاکستان ميں طب کے حوالے سے پاليسی طے کرے گی۔
نيشنل ميڈيکل اينڈ ڈينٹل اکیڈمک بورڈ طب کی تعلیم کا معیار ديکھے گا اور ميڈيکل پروفيشنلز کے لائنسنسنگ کے حوالے سے اقدامات اٹھائے گا۔
ميڈيکل کميشن اتھارٹی تمام سفارشات پر عمل درآمد کو یقینی بنائے گی۔
نئے آرڈیننس کے مطابق لائسنس کی تجديد سميت تمام اختيارات کميشن کو دے ديے گئے ہيں۔
ڈاکٹر ظفر مرزا کہتے ہیں کہ اس ضمن ميں ايک سمری وزير اعظم کو ارسال کی گئی ہے تاکہ جلد ازجلد کونسل قائم کر دی جائے۔
ڈاکٹرز کے لیے مزيد 'ٹیسٹ'
وزير اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت نے بتايا کہ ايف ايس سی کے بعد میڈیکل پروفیشن میں آنے کے خواہش مند طلبا کے لیے ايک نيشنل انٹرینس ٹیسٹ ہوتا ہے۔ وہ اب قومی سطح پر ايک ہی دن ميں ليا جائے گا۔
ڈاکٹر ظفر مرزا نے بتايا کہ اب ڈاکٹرز ہاؤس جاب مکمل کرنے کے بعد جب باقاعدہ پريکٹس شروع کرنا چاہیں گے تو انہیں اس وقت بھی ايک امتحان دينا پڑے گا تاکہ پريکٹس لائسنس حاصل کيا جا سکے۔ اس کے بعد جب وہ باقاعدہ پريکٹس شروع کريں گے تب بھی ايک اور امتحان پاس کرنا ہوگا۔
انہوں نے مزيد بتايا کہ اس قسم کے امتحانات کا اطلاق مارچ 2020 کے بعد میڈیکل کے گريجويٹ تمام طلبا پر ہوگا اور يہ امتحان سال ميں دو مرتبہ منعقد کيا جائے گا۔
دوسری جانب طلبا کہتے ہیں کہ حکومت نے بغير کسی تحقيق کے آرڈيننس نافذ کيا ہے۔ ان کے مطابق ايک طالب علم آخر کتنے امتحانات دے گا۔
ياد رہے کہ پاکستان ميں ايف ايس سی (یعنی بارہویں جماعت) ميں اچھے مارکس حاصل کرنے کے بعد ميڈيکل کی تعليم کے لیے کواليفائی کرنے کی غرض سے انٹری ٹيسٹ لیا جاتا ہے۔
طلبا کے مطابق اس ٹیسٹ کی بنياد پر ميڈيکل کالجز ميں داخلہ ملتا ہے۔ وہاں پانچ سال کی محنت کے بعد ايک سال ہاؤس جاب کے بعد ہی کوئی ڈاکٹر پریکٹس کے قابل بنتا ہے تاہم حکومت کا اصرار ہے کہ ہاؤس جاب سے پہلے اور بعد ميں بھی مزيد امتحانات پاس کرنا لازمی ہوں گے۔
پی ايم ڈی سی بلڈنگ میں چھٹی کے دن آمد
شفقت علی خان گزشتہ 11 سال سے بطور سيکیورٹی گارڈ ڈيوٹی سر انجام دے رہے ہيں۔
ان کے مطابق گزشتہ اتوار دن دو بجے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کی سربراہی ميں 200 سيکیورٹی اہلکار پی ايم ڈی سی آئے اور درخواست کی کہ گيٹ کھولا جائے جس پر ميں نے کہا کہ آج چھٹی کا دن ہے اور گيٹ نہیں کھولا جا سکتا۔
شفقت علی کے مطابق انہوں نے کسی بھی قسم کا کوئی حکومتی آرڈر نہیں دکھايا۔ اس پر وہ غصہ ہوئے اور پوليس نے مچھ پر گيٹ بھلانگ کر تشدد کيا اور مارنے کے بعد ہم سب سے موبائل فونز چھين لیے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ہم سب کو ايک طرف لائن ميں کھڑا کر ديا گیا اور شام کو سات بجے کے قريب سارا دفتر سيل کرنے کے بعد ہميں چھوڑا گيا۔
سسٹم کو پرائيویٹ کرنے کی سازش
خیبر پختونخوا میں ڈاکٹرز اور دیگر طبی عملے کی مشترکہ طور پر قائم کی گئی باڈی گرينڈ ہيلتھ الائنس کے ایگزیکٹو ممبر ڈاکٹر محمد فيصل خان کا کہنا ہے کہ پاکستان ميڈيکل اينڈ ڈينٹل کونسل کے نام پر پوری دنيا کے ساتھ ميڈيکل کی ڈگريوں، سرٹيفيکٹس کے حوالے سے تبادلہ ہوتا تھا اور اسی نام سے ہی ہماری پہچان تھی۔ اب پاکستان ميڈيکل اينڈ ڈينٹل کونسل تحليل ہو گئی ہے اور حکومت ايک نئی باڈی بنائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ دوسری بات يہ ہے کہ پہلے جو پاکستان ميڈيکل اينڈ ڈينٹل کونسل کے ممبران ميں سے کچھ وفاقی حکومت، کچھ صوبائی حکومت اور کچھ کا تعين اليکشن کے ذریعے ہوتا تھا اس کی خاص بات يہ ہوتی تھی کہ کسی کے پاس بھی ڈيکٹيوريل پاور نہیں ہوتی تھيں۔ اب نئے سسٹم کے تحت تمام ممبرز وزير اعظم کے مقرر کردہ ہوں گے ۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پی ايم ڈی سی ہماری ريگوليٹری باڈی ہے اور يہ ميڈيکل ايجوکيشن پاکستان کے اندر ريگوليٹ کرتی تھی۔
ڈاکٹر محمد فيصل خان نے کہا کہ اب نئے آرڈيننس کے ذریعے ہر اسپتال اپنے طور پر رولز اور ريگوليشن بنائے گا۔ اس سے پہلے پی ايم ڈی سی نے اسکولز کے لیے ايک فيس مقرر کی تھی کہ اس سے زائد فيس کسی طالبعلم سے نہ لی جائے۔ اب يہ ہوگا کہ کالج خود ايڈمشن دیں گے۔ اپنی مرضی کے مطابق فيس مقرر کريں گے۔
ڈاکٹر فيصل کا کہنا تھا کہ ان کے خيال ميں يہ تمام تر کوششيں پاکستان کے تمام ہيلتھ سسٹم کے نجکاری کی کوشش ہے۔
ملازمين کا احتجاج جاری رکھنےکا اعلان
محمد صفدر کے مطابق پی ايم ڈی سی کے تمام برطرف شدہ ملازميں دفتر کے سامنے ايک ہفتہ سے ہر زور احتجاج کر رہے ہيں۔
ان کے مطابق ان کی برطرفی نہ صرف انسانی حقوق کے منافی ہے بلکہ پاکستان کے آئين کے بھی خلاف ہے۔
نو سال سے پی ايم ڈی سی کے ملازم محمد صفدر وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ايک جانب تو حکومت ملک ميں مزيد نوکريوں کی بات کرتی ہے جب کہ دوسری جانب ملازمين کو فارغ کر رہی ہے يہ سوچے بغير کہ ان ملازمين اور ان کے خاندان کا کيا بنے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت تک اپنا احتجاج جاری رکھيں گے جب تک حکومت ان کے مطالبات پورے نہیں کرتی۔