ایسے حالات میں جب سیاسی و معاشی بحران پاکستان کے دروازے پر دستک دے رہا ہے، وزیرِاعظم اپنی کابینہ کے اہم وزرا کے ساتھ پارٹی کے قائد سے مشاورت کے لیےگزشتہ دور روز سے لندن ہیں اور ملک سے ان کی عدم موجودگی پر چہ مگوئیوں اور تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔
امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپیہ تاریخ کی کم ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔ جمعے کو انٹر بینک مارکیٹ میں ایک ڈالر 193 روپے سے زائد پر فروخت ہوتا رہا۔
سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنے ایک ٹوئٹ میں معاشی صورت حال پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا ہے کہ روپیہ تاریخ کی کم ترین سطح193پرہے جب کہ رواں برس یہ 8مارچ کو178 تھا۔
عمران خان کا کہنا ہے کہ کہ شرح سود 1998 کے بعد 15 فی صد کی بلند ترین سطح پرہے۔ اسٹاک مارکیٹ تین ہزار پوائنٹس تک گرچکی ہے اور اسٹاک مارکیٹ 604 ارب روپے کی کیپیٹلائزیشن گنواچکی ہے۔
انہوں نے لکھا کہ مہنگائی جنوری2020کےبعدسے 13.4 فی کی بلند ترین سطح پرہے۔ یہ سب امپورٹڈ حکومت پرتاریخ کےکم ترین اعتماد کی علامتیں ہیں۔
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ مارکیٹ پالیسی اور اقدامات کی منتظر ہے جو فراہم کرنے میں یہ امپورٹڈ حکومت مکمل ناکام رہی ہے۔ میں نےاور شوکت ترین نے”نیوٹرلز“ کومتنبہ کیاتھاکہ اگرسازش کامیاب ہوئی تو ہماری نحیف معاشی بحالی ڈوب جائےگی۔ یہی سب اب ہوچکاہے۔
’معاشی صورتِ حال عمران خان کے اقدامات کا نتیجہ‘
وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ملک میں جاری مہنگائی عمران خان کی حکومت کے آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدوں کا نتیجہ ہے، ان سے نکلیں گے تو ڈالر کی قیمت نیچے آئے گی۔
انہوں ںے کہا کہ ملک میں زرِ مبادلہ کی صورتِ حال خطرناک ہے، اسے دوگنا ہونا چاہیے تھا۔ گزشتہ حکومت 10 اعشاریہ چار ارب ڈالر کے ذخائر چھوڑ کر گئی تھی جو 45 دن کی درآمدات کے لیے کافی ہیں۔
جیو نیوز کے مطابق وزیرِ خزانہ کا کہنا تھا کہ عالمی منڈی میں پیٹرول کی قیمتِ خرید اور پاکستان میں اس کی قیمت میں بہت فرق ہے۔ پیٹرول پر دی گئی سبسڈی کی وجہ سے معیشت شدید دباؤ کا شکار ہوئی ہے۔ اتنا بڑا خسارہ کوئی حکومت برداشت نہیں کرسکتی۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے تاریخ کاسب سے بڑا قرض لیا ہے۔ ان کی حکومت نے تین سال میں 20 ہزار ارب روپے کا قرض لیا جو 71 سال میں لیے گئے مجموعی قرضوں کا 80 فی صد بنتا ہے۔
مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ نواز شریف ملک میں ترقی کی شرح 5.5 اور مہنگائی کی شرح 3.4 فی صد پر چھوڑ کر گئے تھے۔ گزشتہ تین سال میں عمران خان کے اقدامات نے ملکی معیشت کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔
حکومت واضح پالیسی سامنے نہیں لاسکی
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ماہرِ معیشت اور سابق وزیرِ خزانہ حفیظ پاشا نے کہا کہ اس وقت حکومت کے دو ہیڈکوارٹر کام کررہے ہیں جن میں سے ایک لندن میں اور ایک پاکستان میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت سیاست دان سیاسی نکتہ نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ لیکن آگر آئی ایم ایف کے پاس نہیں جاتے تو اس سے زیادہ برا حال ہوگا جو ان کے پاس جانے کی صورت میں ہونا ہے۔بڑا سوال یہ ہے کہ اگر ایک ڈالر تین سو روپے کا ہو گیا تو کیا کیا جائے گا؟
گزشتہ ہفتے کے دوران روپے کی قدر میں مسلسل کمی پر معاشی ماہرین جہاں خدشات کا اظہار کر رہے ہیں وہیں اب تک اتحادی حکومت کی جانب سے کوئی واضح معاشی پالیسی سامنے نہیں آسکی ہے۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف اور کابینہ کے نصف درجن سے زائد وزرا لندن میں موجود ہیں جو پارٹی قائد نواز شریف سے پاکستان کو درپیش مسائل کے حل پر مشاورت کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں حکومت پر تنقید کی جا رہی ہے کہ اب پاکستان کے فیصلے لندن میں ہو رہے ہیں تاہم حکومتی وزرا بارہا اس تاثر کی نفی کر چکے ہیں۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف اور وفاقی وزرا کی لندن میں موجودگی پر سابق وفاقی وزیرِ اطلاعات اور تحریکِ انصاف کے مرکزی رہنما فواد چوہدری نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت لندن میں بیٹھی ہے اور ایک ڈالر کے مقابلے میں روپیہ 193 روپے تک پہنچ گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں کوئی حکومت نہیں، پنجاب میں پانی میسر نہیں جس کی وجہ سے خریف کی فصلیں تباہ ہو رہی ہیں۔ مذاق بند کریں اور عبوری حکومت بنا کر انتخابات کرائیں۔
فواد چوہدری کی طرح سینئر صحافی انصار عباسی نے بھی اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ایک ایک لمحہ اور ایک ایک دن اہم ہے لیکن اتحادی حکومت ایک ماہ سے زیادہ گزرنے کے باوجود معاشی فیصلے نہیں کر سکی۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ پاکستان کا کیا بنے گا؟
گزشتہ ماہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد بننے والی اتحادی حکومت کو معاشی صورت حال کی وجہ سے اپنے ابتدائی دنوں ہی میں شدید دباؤ کا سامنا ہے۔
ایک جانب معاشی اشاریے مسلسل حالات کی سنگینی کا پتا دے رہے اور دوسری جانب سابق وزیرِ اعظم عمران خان جلد انتخابات کرانے کے لیے ملک گیر جلسے کررہے ہیں۔ ان حالات میں حکومتی اتحاد میں شامل جماعتیں اب تک سیاسی و معاشی حالات کا مقابلہ کرنے لیے کوئی واضح اور مشترکہ حکمتِ عملی سامنے نہیں لا سکی ہیں۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف کی لندن میں نواز شریف سے ہونے والی ملاقات سے قبل یہ کہا جا رہا تھا کہ کوئی بڑی خبر آنے والی ہے۔ تاہم بدھ کو اس ملاقات کے بعد سے تاحال باضابطہ کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
البتہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے جمعرات کو لندن میں میڈیا بریفنگ کے دوران کہا تھا کہ حکومت کو درپیش مسائل اور چیلنجز ورثے میں ملے ہیں اور سلسلے میں پارٹی قائد نواز شریف سے مشاورت اور رہنمائی لی جارہی ہے تاکہ حکومت آنے والے دنوں میں تیز رفتاری کے ساتھ ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے لیے فیصلہ کن اقدامات اٹھا سکے۔
وفاقی وزیر احسن اقبال نے یہ واضح نہیں کیا کہ نواز شریف نے حکومت کو کیا مشورہ دیا ہے اور حکومت مستقبل میں کیا اقدامات کر سکتی ہے۔تاہم صحافتی حلقوں میں یہ چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں کہ نواز شریف قبل از وقت انتخابات کے حامی ہیں جس کااظہار سابق صدر آصف علی زرداری نے بدھ کو ایک پریس کانفرنس کے دوران کیا تھا۔
آصف زرداری کا کہنا تھا کہ ان کی سابق وزیرِ اعظم نواز شریف سے بات ہوئی ہے اور وہ انہیں کی ایما پر کہتے ہیں کہ انتخابی اصلاحات کے بعد نئے انتخابات کرا دیے جائیں گے۔ گزشتہ روز حکومت کے ایک اور اہم اتحادی مولانا فضل الرحمٰن نےبھی الیکشن سے قبل انتخابی اصلاحات کرنے پر زور دیا ہے۔