یہ مسائل ِ تصوف یہ تیرا بیاں غالب ۔۔۔ تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
جس طرح اردو زبان ‘‘شاعری’’ کے بغیر ادھوری ہے، بالکل اسی طرح اردو شاعری کی تاریخ و تذکرہ مرزا اسد اللہ غالب کے بغیر نامکمل ہے۔ جنہوں نے اردو شاعری کو نئی ادا، جہت اور دوام بخشا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی غالب اردو بولنے والوں کے دلوں میں بستے ہیں، جو ان کی یاد کا کوئی بہانہ ہاتھ سے جانےنہیں دیتے۔ یہ امریکی ریاست ورجینیا میں منعقدہ ایک ایسی شام کا ذکر ہے جس میں کراچی المنائی کی جانب سے غالب کو قدرے منفرد انداز میں یاد کیا گیا۔
کراچی المنائی کے ممبر شاہ فضل عباس کا کہنا تھا کہ یہ شام غالب کو خراج ِ پیش کرنے کا ایک انداز ہے اور ان کی شاعری کے حوالے سے کراچی المنائی نے یہ شام منعقد کی۔
اس محفل کی خاصیت دو امریکیوں کی جانب سے مرزا غالب پر مقالے پڑھنا بھی تھا۔
برائن سلور نے اپنے مقالے میں اسد اللہ خان غالب کی شاعری پر روشنی ڈالنے کے ساتھ ساتھ ان کی زندگی کے چند واقعات بیان کیے۔
امریکہ میں اردو شاعری کو رواج دینے والی علی گڑھ المنائی ایسو سی ایشن میری لینڈ کے روح ِ رواں ڈاکٹر عبداللہ کا کہنا تھا کہ دیار ِ غیر میں اس طرح کی کاوشیں قابل تعریف ہیں۔ انہوں نے بطور ِ خاص جان ہنسن اور برائن سلور جیسے سفید فام امریکیوں کی جانب سے اردو زبان سیکھنے اور غالب کے لیےاردو میں مقالہ پڑھنے کی تعریف کی۔ ڈاکٹر عبداللہ نے کہا کہ علی سردار جعفری نے مرزا غالب کو جنوبی ایشیا کا پہلا ماڈرن مسلمان قرار دیا تھا۔
مقامی شعرا نے الفاظ کو شاعری کا پیرہن پہنا کر غالب کو داد دی۔ میری لینڈ میں رہنے والی شاعرہ مونا شہاب نے اس حوالے سے ایک نظم پڑھی۔ جس کا ایک قطع کچھ یوں تھا ،
کچھ تو کہیے شاعر ِ فردوس ِ دنیائے سخن
بولیے کچھ شاعر ِ رنگیں بیاں شیریں دہن
اس قدر خاموش کیوں ہیں ہم کو کچھ بتلائیے
پیرہن الفاظ کا تصویر کو پہنائیے