اگرچہ پولیس کے مطابق شدت پسندوں کے 150 سے زائد سہولت کاروں کو گرفتار کیا جا چکا ہے لیکن اب بھی جدید و بھاری اسلحے سے لیس جرائم پیشہ عناصر کی طرف سے سرکاری فورسز کو مزاحمت کا سامنا ہے۔
جمعرات کو پنجاب پولیس کی ترجمان نبیلہ غضنفر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں تصدیق کہ اب تک چھ اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ بدھ سے 24 پولیس اہلکار لاپتا ہیں۔
’’24 پولیس اہلکار جو ہیں اُن سے سے ہمارا رابطہ منقطع ہے۔‘‘
باور کیا جاتا ہے کہ ان پولیس اہلکاروں کو جرائم پیشہ عناصر نے یرغمال بنا رکھا ہے۔
پنجاب پولیس کی ترجمان کے مطابق لاپتہ پولیس اہلکاروں کی بازیابی کے لیے علاقے کے عمائدین کی مدد بھی حاصل کی جا رہی ہے۔
پولیس کے مطابق ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں دریائے سندھ کے کچے کے علاقے میں جرائم پیشہ گروپ "چھوٹو گینگ" اور کئی دیگر شر پسند عناصر موجود ہیں۔
پولیس کے مطابق جنگلات اور کئی فٹ اونچی گھاس کے باعث اہلکاروں کے لیے اس جزیرے میں داخلہ دشوار تھا اور یہاں پہنچنے کی کوشش کے دوران ہی اہلکاروں کو مبینہ طور پر یرغمال بنا لیا گیا۔
پولیس ترجمان کے مطابق ’چھوٹو گینگ‘ کے چار اہم ڈاکو مارے جا چکے ہیں جب کہ آٹھ زخمی ہیں۔
پولیس حکام کے مطابق ’ضرب آہن‘ نامی اس آپریشن میں زمینی فورسز کی مدد کے لیے اب ہیلی کاپٹروں سے فضائی کارروائیوں پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔
پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف اس کارروائی میں پولیس، محکمہ انسداد دہشت گردی اور رینجرز کی مدد کی جا رہی ہے۔
مختلف حلقے پنجاب میں کچے کے علاقے میں چھپے شدت پسندوں کے خلاف آپریشن کے مطالبات کر رہے تھے، لیکن حتمی کارروائی کا فیصلہ گزشتہ ماہ لاہور میں ایسٹر کے موقع پر ایک پارک میں ہونے والے مہلک خودکش بم حملے کے بعد کیا گیا جس میں بچوں اور خواتین سمیت 70 سے زائد افراد ہلاک اور لگ بھگ 300 زخمی ہو گئے تھے۔