قصور میں زیادتی کے بعد قتل کی جانے والی چھ سالہ بچی زینب کے قتل کے ملزم عمران علی کو لاہور کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔
انسدادِ دہشت گردی لاہور ڈویژن کی عدالت میں بدھ کو زینب قتل کیس کے ملزم عمران علی کو عدالتی وقت ختم ہونے سے چند منٹ قبل پیش کیا گیا۔
پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ ملزم سے تفتیشن کرنا باقی ہے جس پر عدالت نے ملزم عمران کا 14 دن کا جسمانی ریمانڈ دے دیا۔
ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر قصور زاہد مروت نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ملزم عمران نے زينب کو والدين سے ملانے کا کہہ کر اغوا کيا تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پوليس نے پہلے اسے حراست ميں لینے کے بعد اس ليے چھوڑا تھا تاکہ مشتبہ افراد کی طرح اس کی سرگرميوں پر کڑی نظر رکھی جاسکے۔
زاہد مروت نے بتایا کہ پولیس نے ملزم کی گرفتاری کے لیے جيو فينسنگ سميت جديد ٹيکنالوجی استعمال کی اور پوليس کي نفری مختلف روپ دھار کر پورے علاقے ميں پھيلی رہی جو ملزم کی ہر حرکت کو مانيٹر کر رہی تھی۔
ڈی پی او قصور نے بتایا کہ ملزم عمران علی بھيس بھي بدلتا تھا اور بچوں کو ٹافیاں اور چاکلیٹ دینے کے بہانے بہلا پھسلا کر ساتھ لے جاتا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ زينب چونکہ مالی طور پر مستحکم گھرانے سے تعلق رکھتی تھي اس ليے ملزم نے اسے چاکليٹ کے بجائے والدين سے ملانے کا بہانہ بنا کر ورغلايا۔
قصور کی ساڑھے چھ سالہ زینب کو رواں ماہ چار جنوری کو اس کے گھر کے قریب سے اغوا کیا گیا تھا۔ بعد ازاں بچی کی تشدد زدہ لاش کچرے کے ڈھیر سے ملی تھی اور پوسٹ مارٹم رپورٹ میں زینب کے ساتھ جنسی زیادتی ثابت ہوئی تھی۔
زیادتی اور قتل کے ملزم کی گرفتاری کا اعلان منگل کو وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے ایک پریس کانفرنس میں کیا تھا۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ملزم نے قصور سے اغوا ہونے والی کئی اور بچیوں کے ساتھ زیادتی کا بھی اعتراف کیا ہے۔