سینیٹ کے انتخابات کے بعد سامنے آنے والے غیر سرکاری نتائج پر سیاسی حلقوں کی طرف سے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے اور حسب روایات اکثریت حاصل کرنے والے اسے جمہوریت کا فروغ قرار دے رہے ہیں جب کہ دیگر، مبینہ بدعنوانی کی طرف انگشت نمائی کر رہے ہیں۔
غیر سرکاری نتائج کے مطابق ہفتہ کو 52 نشستوں پر ہونے والے انتخاب میں حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے حمایت یافتہ 15 امیدوار کامیاب ہوئے جب کہ پیپلزپارٹی کے حصے میں 12 نشستیں آئیں اور دس پر آزاد امیدواروں نے فتح سمیٹی۔ پاکستان تحریک انصاف نے چھ، جمعیت علمائے اسلام (ف)، نیشنل پارٹی اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی نے دو، دو جب کہ متحدہ قومی موومنٹ، جماعت اسلامی اور مسلم لیگ فنکشنل نے ایک، ایک نشست حاصل کی۔
حکمران جماعت کی راہنما مریم نواز شریف نے ٹوئٹر پر اپنی جماعت کے حمایت یافتہ کامیاب امیدواروں کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ یہ ان کے والد سابق وزیراعظم نواز شریف کی مقبولیت کی تصدیق ہے۔
انھوں نے بظاہر ایک بار پھر نواز شریف کے خلاف عدالتی فیصلوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ "سینیٹ انتخاب میں مسلم لیگ ن کا نام اور انتخابی نشان چھین لیے گئے لیکن سینیٹ کا انتخاب ہر اس امیدوار نے جیتا جو نواز شریف کا انتخاب تھا۔"
گزشتہ ہفتے ہی سپریم کورٹ نے نواز شریف کو سیاسی جماعت کا عہدہ رکھنے سے بھی نا اہل قرار دیتے ہوئے ان کی طرف سے کیے جانے والے فیصلوں کو بھی کالعدم قرار دے دیا تھا جس کے بعد سابق وزیراعظم کے توثیق کردہ امیدواروں کی نامزدگی بھی مسترد ہو گئی تھی اور ان امیدواروں کو آزاد حیثیت میں سینیٹ انتخاب میں حصہ لینا پڑا تھا۔
دوسری طرف حکومت اور شریف خاندان کے سب سے بڑے ناقد پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان انتخاب میں مبینہ بدعنوانی کی طرف انگشت نماءی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے بقول خیبرپختونخواہ میں سات ارکان ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی نے وہاں سے سینیٹ کے لیے دو نشستیں کیسے حاصل کیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ پیپلزپارٹی ایسا ہی سوال تحریک انصاف سے کر رہی ہے جس نے پنجاب سے ایک سینیٹ نشست حاصل کی جب کہ تحریک انصاف کے پنجاب اسمبلی میں ارکان کی تعداد 30 ہے۔
سینیئر سیاسی تجزیہ کار احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ انتخابی عمل میں فریقین کی طرف سے ہمیشہ سوال اٹھائے جاتے رہے ہیں لیکن جو لوگ اعتراض کر رہے ہیں انھیں چاہیے تھا کہ بروقت قانون سازی کرتے۔
اسی اثنا میں ایک وقت سندھ کے شہری علاقوں خصوصاً کراچی میں بااثر سیاسی جماعت تصور کی جانے والی متحدہ قومی موومنٹ سینیٹ کی ایک نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی جسے اس جماعت کے راہنما تو دھڑے بندیوں کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں لیکن اسی جماعت سے علیحدہ ہو کر اپنی سیاسی پارٹی بنانے والے مصطفیٰ کمال دعویٰ کرتے ہیں کہ ایم کیو ایم کے اراکین اسمبلی نے مبینہ طور پر بدعنوانی کی۔
سندھ کے سیاسی منظر نامے پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر تجزیہ کار ڈاکٹر توصیف احمد کے خیال میں ایم کیو ایم آپسی اختلافات کے نتیجے میں اس نہج تک آئی ہے اور اگر صورتحال ایسی ہی رہی تو آئندہ عام انتخابات میں ایم کیو ایم کے لیے معقول عوامی نمائندگی حاصل کرنا مشکل ہو گا۔