الیکشن میں عوام نے آزاد امیدواروں کو نہیں انہیں سپورٹ کرنے والی پارٹی کو ووٹ دیا، جسٹس مندوخیل
مخصوص نشستوں کے کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ پاکستان تحریکِ انصاف نے بطور جماعت الیکشن لڑا۔الیکشن کمیشن سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی پارٹی ڈیکلئیر کر رہا ہے تو کیا پی ٹی آئی کو نہیں کر سکتا تھا؟
انہوں نے کہا کہ کوئی غلطی بھی ہوئی تھی تو الیکشن کمیشن اسے ٹھیک کر سکتا تھا۔ یہ عوام کا معاملہ ہے الیکشن کمیشن عوام کو ڈس فرنچائز نہیں کر سکتا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ الیکشن میں عوام نے کسی آزاد کو ووٹ نہیں دیا، ان کو ووٹ دیا جنہیں ایک پارٹی سپورٹ کر رہی تھی۔
سماعت میں جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ نوٹی فیکیشن کے مطابق سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں کوئی نشست نہیں جیتی تھی۔الیکشن کمیشن ایک جانب کہتا ہے سنی اتحاد الیکشن نہیں لڑی اور ساتھ ہی پارلیمانی جماعت بھی مان رہا ہے۔ الیکشن کمیشن کے احکامات میں کوئی منطق نظر نہیں آتی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر سنی اتحاد کونسل سے غلطی ہوئی تھی تو الیکشن کمیشن تصحیح کر سکتا تھا۔
اپنے ریمارکس میں جسٹس مندوخیل نے کہا کہ اگر ایسا ہو جائے تو نشستیں پی ٹی آئی کو ملیں گی سنی اتحاد کو نہیں۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس منیب اختر کے درمیان جملوں کا تبادلہ، سماعت منگل تک کے لیے ملتوی
الیکشن کمیشن کی جانب سے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو نہ دینے کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس منیب اختر کے درمیان جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی کے دلائل کے دوران چیف جسٹس نے ججز کو سوالات کرنے سے روک دیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آپ کو سننے بیٹھے ہیں ہم اپنا فیصلہ کر لیں گے۔ میں ایک بار ایک عدالت پیش ہوا تو کہا تھا آپ اگر فیصلہ کر چکے ہوئے تو میں اپنا کیس ختم کرتا ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ میرا خیال ہے فیصل صدیقی صاحب ہم آپ کو سننے بیٹھے ہیں۔ اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ یہ ایک غیرذمہ دارانہ بیان ہے۔ فل کورٹ میں ہر جج کو سوال پوچھنے کا اختیار اور حق حاصل ہے۔ چیف جسٹس نے اس پر کہا کہ فیصل صاحب آگے بڑھیں میں نے ہلکے پھلکے انداز میں بات کی تھی۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اس قسم کا غیر ذمہ دارانہ بیان تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔
بعدازاں چیف جسٹس نے کیس کی سماعت منگل کی صبح ساڑھے 11 بجے تک کے لیے ملتوی کر دی۔
سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سزائیں کالعدم قرار
اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو سنائی گئی سزاؤں کے خلاف اپیلیں منظور کرتے ہوئے اُنہیں بری کر دیا ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے پیر کو عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی اپیلوں پر محفوظ فیصلہ سنایا۔
واضح رہے کہ رواں برس جنوری میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس میں 10، 10 برس قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
وفاقی تفتیشی ادارے (ایف آئی اے) نے اکتوبر 2022 میں عمران خان، شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور دیگر پر امریکہ میں پاکستان کے سفیر اسد مجید کی جانب سے بھجوائے گئے سائفر کو لیک کرنے اور حقائق کو توڑ مروڑ کر اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرنے کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔ عمران خان پر بطور وزیرِ اعظم اور شاہ محمود قریشی پر بطور وزیرِ خارجہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کے الزامات لگائے گئے تھے۔
سائفر کیس: عمران خان اور شاہ محمود قریشی بری