امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو ٹیلی فون کرکے خطے کی صورتِ حال پر گفتگو کی ہے۔
امریکی وزارت خارجہ کی تر جمان ہیتھر نوارٹ کے دفتر کی طرف سے جاری ہونے والے بیان کہا گیا ہے کہ دونوں اعلی عہدے داروں نے پاکستان اور امریکہ کے دوطرفہ تعلقات کو آگے بڑھنے کے طریقوں ، افغانستان میں سیاسی مفاہمت کی ضرورت اور جنوبی ایشیا میں موجود تمام عسکری اور دہشت گرد گروپس کو بلا امتیاز ہدف بنانے کے موضوعات پر بات چیت کی۔
پاکستان اور امریکہ کے درمیان اس وقت تعلقات اپنی انتہائی کمتر سطح پر ہیں۔ حال ہی پاکستان کے سبکدوش ہونے والے وزیر خارجہ خرم دستگیر نے وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان اعلی سطح پر رابطے اور بات چیت بند ہے اور سفیر صرف وزارت خارجہ کے عہدے داروں سے بات کرتے ہیں، جب کہ ماضی میں ایسا نہیں ہوتا تھا۔
دونوں ملکوں میں اختلاف اور کشیدگی کی بڑی وجہ حقانی نیٹ ورک ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ افغانستان میں زیادہ تر حملوں میں حقانیوں کے کارندے ملوث ہوتے ہیں۔ جن کے محفوظ ٹھکانے پاکستان کے اندر ہیں۔
پاکستان اس الزام کو مسترد کرتا ہے اور اس کا دعوی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دنیا بھر میں سب سے زیادہ قربانیاں پاکستان نے دیں ہیں۔ دنیا کے کسی بھی ملک کے مقابلے میں اس جنگ میں اس کے سیکیورٹی اہل کار اور عام شہریوں کی زیادہ تعداد ہلاک اور زخمی ہوئی ہے۔
پاکستان کا یہ بھی دعوی ہے کہ اس نے حقانی نیٹ ورک سمیت تمام عسکری اور دہشت گرد گروپس کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی ہے اور ملک بھر سے تمام گروپس کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔
پاکستان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس نے سرحد کے آر پار دہشت گردوں کی آمد و رفت روکنے کے لیے افغانستان کے ساتھ سرحد پر باڑ لگانی شروع کر دی ہے۔اور یہ کہ دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے پاکستان میں موجود تقریباً 30 لاکھ افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی ضروری ہے کیونکہ دہشت گرد ممکنہ طور پر پناہ گزین کیمپوں میں پناہ لیتے ہیں جہاں انہیں شناخت کرنا اور ان کے خلاف آپریشن کرنا ممکن نہیں ہوتا۔