امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ یکم ستمبر تک افغان امن سمجھوتہ طے پا جائے گا، جو ان کے بقول "یقینی طور پر ہمارا مشن ہے۔"
منگل کے روز کابل میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ اس سلسلے میں پاکستان کا کردار اہم ہے، جس ضمن میں پیش رفت ہوئی ہے۔
آئندہ ماہ قطر میں بین الافغان مذاکرات منعقد کرانے پر، وزیر خارجہ نے جرمنی کے عزم کا خیر مقدم کیا۔ ساتھ ہی، اُنھوں نے کہا کہ مربوط امن سجھوتے کے نظام الاوقات اور سیاسی لائحہ عمل پر متفق ہونے کے حوالے سے امریکہ بھی بین الافغان امن مذاکرات کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔
انھوں نے کہا کہ امریکہ کا یہ کام نہیں کہ وہ مذاکرات کے نتائج سے متعلق ہدایات دے۔
مائیک پومپیو نے کہا کہ جیسا کہ صدر ٹرمپ کہہ چکے ہیں، امن کی گھڑی قریب آ چکی ہے۔ ’’ہم اس بات پر متفق ہیں کہ امن ہماری اولین ترجیح ہے اور یہ کہ افغانستان کی سرزمین پھر کبھی بین الاقوامی دہشت گردی کا مرکز نہیں بنے گی‘‘۔
وزیر خارجہ نے آپس میں جڑے چار معاملات کی نشاندہی کرتے ہوئے ’’انسداد دہشت گردی، غیر ملکی فوجی موجودگی، بین الافغان مکالمہ اور مستقل جنگ بندی‘‘ کا ذکر کیا۔
دہشت گردی کے بارے میں اُنھوں نے کہا کہ ہم نے حقیقی پیش رفت حاصل کی ہے اور سمجھوتے کا مسودہ تقریباً تیار ہو چکا ہے، جس میں طالبان کی جانب سے اس عزم کا اظہار شامل ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ افغان سرزمین پر پھر کبھی دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانے میسر نہیں آئیں گے۔
حاصل کردہ پیش رفت کے بعد، پومپیو نے کہا کہ اب ہم نے طالبان کے ساتھ غیر ملکی فوج کی موجودگی سے متعلق گفت و شنید شروع کر دی ہے، جو آج شرائط کی بنیاد پر جاری ہے۔
بقول ان کے، ’’ایسے میں جب ہم نے طالبان پر یہ بات واضح کر دی ہے کہ ہم افواج
کو ہٹانے پر تیار ہیں۔ میں ایک بات واضح کر دینا چاہتا ہوں۔ ہم نے ابھی تک نظام الاوقات پر اتفاق نہیں کیا‘‘۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ تمام فریقین اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ دہشت گردی اور غیر ملکی فوج کی موجودگی کے بارے میں امریکہ طالبان کے مابین معاملات طے پا جانے کے نتیجے میں بین الافغان مکالمے اور مذاکرات کے دروازے کھل جائیں گے۔
بقول اُن کے، ’’یہ اگلا قدم ہماری کاوشوں کا محور ہے۔ ہم حکومت یا افغان عوام کی جانب سے طالبان کے ساتھ مذاکرات نہیں کر رہے ہیں، نہ ہی ہم ایسا کریں گے‘‘۔
بعد ازاں، کابل میں مائیک پومپیو نے امریکی سفیر جان بوس اور نیٹو کے کمانڈر، جنرل آسٹن اسکوٹ مِلر کے علاوہ، افغان صدر اشرف غنی اور چیف اگزیکٹو، عبداللہ عبداللہ سے ملاقاتیں کیں۔ افغان صدر سے ملاقات کے دوران، سفیر جان بوس کے علاوہ ایلچی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد کے علاوہ جنرل مِلر بھی شریک ہوئے۔