امریکی محکمہ مردم شماری کی طرف سے جاری کردہ ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس وقت یہاں چار کروڑ 60لاکھ افراد غربت کی زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ یہ 1959ءکے بعد سے امریکہ میں غربت کی بلندترین سطح ہے۔ بے روزگاری مسلسل دو سال سے نو فی صد سے زیادہ ہے ، پانچ کروڑ سے زیادہ افراد کے پاس علاج معالجے کے لیے ہیلتھ انشورنش نہیں ہے اورانہیں مالی معاونت فراہم کرنے والے سرکاری اداروں پر دباؤ میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔
جینا بکوسکی کہتی ہیں کہ جب نوکری نہ ہو ، اور سرکاری الاونس گزارے لائق نہ ہو ، توامریکہ کسی کواپنے خوابوں جیسا نہیں لگتا ۔
ان کا کہناہے کہ میرا خواب تھا کہ میرا اپنا گھر ہو ، اپنا کاروبار ہو ، اپنی گاڑی ہو ، میں زندگی کو بھرپور انداز میں گزاروں ۔لیکن میں ایسا نہیں کر سکتی ۔ میں تو ایسا خواب بھی نہیں دیکھ سکتی ۔
جینا کے دوست جان اوہلیرچ ایک جزوقتی ملازمت کرتے ہیں ، مرگی کے مریض ہیں اور ان کے پاس ہیلتھ انشورنس نہیں ہے ۔ ان کا کہناہے کہ ہر مہینے مہنگی دوائیں خریدنی پڑتی ہیں ۔جب میرے پاس پیسے نہیں ہوتے تو مجھے اپنی دادی کی مدد لینی پڑتی ہے ۔ دوائیں تو لینی ہیں ۔کیونکہ میں مرنا نہیں چاہتا ۔
امریکہ میں ہر چھ میں سے ایک فرد،جینا اور جان کی طرح غربت کے حالات میں رہ رہا ہے ۔پیپلز ریسوس سینٹر کے عہدے دار کم پیریز کہتی ہیں کہ غربت ، مطلب ہر روز اپنے آپ سے یہ سوال کرنا کہ آج پیٹ بھرکھانا کھایا جائے ، یا مکان کا کرایہ دیا جائے ، کیا آج بچوں کے کھانے کا بندوبست کرنا چاہئے یا ان کے لئے دوا خریدنی زیادہ ضروری ہے ۔
وہ امریکی ریاست الینوئے کی ڈو پیج کاونٹی میں ضرورت مند امریکیوں کو مفت خوراک کی فراہمی کا ایک سینٹر چلاتی ہیں ، جو جینا اور جان جیسے امریکیوں کے لئے مشکل دنوں کا سہارا بنا ہوا ہے ۔
ان کا کہناہے کہ وہ لوگ جوکامیاب زندگیاں گزارچکے ہیں اور تعلیم یافتہ ہیں ، ان کی إٓمدنی کم ہو گئی ہے ،بےروزگاری الاونس ختم ہو چکا ہے ، اور سچی بات یہ ہے کہ حکومت کے پاس کوئی پروگرام ایسا نہیں ، جس سے ان ، سب کی مدد ہو سکے ۔
مالی مشکلات میں مبتلاافراد کی تعداد میں جتنا اضافہ ہورہاہے، امدادی اداروں کے وسائل پر اتنا ہی بوجھ بڑھ رہا ہے۔
لیزا میسی لی لنگ ، شکاگو شہر کے ایک نواحی علاقے میں ہارٹ لینڈ ہیومن کیئر سروسز نامی ادارے کے تحت عارضی شیلٹر ہوم چلاتی ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ مدد کے خواہش مند افراد میں صرف چند ہی اپنی ضرورتیں پوری کرنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں ۔ کیونکہ ڈالرز اتنے نہیں آرہے ، جتنے لوگ آرہے ہیں ۔جتنے ہمارے وسائل کم ہو رہے ہیں ، اتنی ہی ضرورت بڑھ رہی ہے ۔وسائل اور ضرورت کے درمیان فرق بڑھتا جا رہا ہے ۔
جینا کو معلوم ہے کہ امدادی ادارے ایک حد تک ہی مدد کر سکتے ہیں ، اور یہ کہ انہیں اپنے اخراجات پورے کرنے کے لئےآخر کار ملازمت ہی کرنی ہوگی۔وہ کہتی ہیں کہ کبھی تو یہ مشکل وقت ختم ہوجائے گا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن فی الحال ابھی تو کوئی امید نہیں ۔
ان کا کہناہے کہ جب تک بےروزگاری میں ، جو اس وقت نو فیصد سے زیادہ ہے ، کمی لانے کی کوشش نہیں کی جاتی ، اس وقت تک امریکہ کے سرکاری امدادی اداروں کے باہر لوگوں کی قطاریں ایسے ہی لگی رہیں گی۔