پاکستان سمیت دنیا بھر سے طب کے ماہرین کی حال ہی میں مرتب کی گئی ایک مشترکہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہر سال دنیا بھر میں تقریباً 15 ملین( ایک کروڑ پچاس لاکھ ) بچے قبل از وقت پیدا ہوتے ہیں اور جن ممالک میں یہ شرح زیادہ ہے پاکستان ان میں چوتھے نمبر پر ہے جہاں یہ تعداد تقریباً ساڑھے سات لاکھ ہے۔
بورن ٹو سون: دی گلوبل ایکشن رپورٹ آن پری ٹرم برتھ‘ کے عنوان سے یہ رپورٹ پاکستان کی آغا خان یونیورسٹی اوردنیا بھر سے دیگر 25 تنظیموں کے45 بین الاقوامی کثیر الشعبہ جاتی ماہرین نے ترتیب دی ہے اور اسے 11 ممالک کی 40 سے زائد تنظیموں کی معاونت حاصل ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان پندرہ ملین بچوں میں سے 10 لاکھ سے زائد بچے پیدائش کے فوراً بعد مر جاتے ہیں جبکہ دیگر بے شمار بچے زندگی بھر جسمانی، عصابی یا ذہنی (حصول علم میں مشکلات) محرومی کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان نقصانات کا ازالہ ان کے گھروالوں اور معاشرے کو کرنا پڑتا ہے۔
اس رپورٹ میں پیش کیے گئے ایک تخمینے کے مطابق اگردنیا بھر میں مروجہ کچھ کم خرچ لیکن مصدقہ حفاظتی اقدامات اورطریقہ علاج اختیار کیے جائیں تو قبل از وقت پیدا ہونے والے ان بچوں کی تین چوتھائی تعدا د کو بچایا جاسکتا ہے جو پیدائش کے بعد ہلاک ہوجاتے ہیں۔
مزید برآں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں زندہ پیدا ہونے والے ہر دس میں سے ایک سے زائد قبل از پیدائش کے ساٹھ فیصد واقعات جنوبی ایشیا اور زیریں صحارن افریقہ میں پیش آتے ہیں۔ جہاں نائیجیریا میں قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد 773,600 سالانہ ہے، چین میں یہ تعداد 1,172,300 اور بھارت میں 3,519,100 ہے جبکہ سالانہ وقت سے قبل پیدا ہونے والے748,100 بچوں کے ساتھ پاکستان اس فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے ۔یہاں ہر 100 میں سے 15.8 بچے وقت سے پہلے پیدا ہوتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون قبل از وقت پیدائش اور اموات کی شرح کم کرنے کو ’گلوبل اسٹریٹیجی فار ویمنز اینڈ چلڈرنز ہیلتھ‘کا لازمی جزو سمجھتے ہیں اور اس رپورٹ کے پیش لفظ میں انھوں نے لکھا ہے ،”گو کہ تمام نوزائیدہ بچوں کو بیماری یا ہلاکت کا احتمال ہوتا ہے تاہم قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کے لیے یہ خطرات بہت زیادہ ہوتے ہیں“۔
آغا خان یونیورسٹی سیکشن آف ویمن اینڈ چائلڈ ہیلتھ کے بانی سربراہ ڈاکٹر ذوالفقار بھٹہ بھی اس رپورٹ کے مصنفین میں شامل ہیں۔ان کا کہنا ہے، ”بہت عرصے تک قبل از وقت پیدائش کوزندہ رہنے کے محدود امکانات کے ہم معنی تصور کیا جاتا رہا ہے۔ ہماری تحقیق کے مطابق حمل سے قبل ، دوران حمل اور خاص طور پر قبل از وقت پیدائش کے بعد خواتین کی دیکھ بھال کے لیے ایسے کئی کم خرچ طریقے اختیار کیے جاسکتے ہیں جو زندگی بچانے اور حمل کے نتائج کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔‘‘
مصنفین کے مطابق ان طریقوں میں قبل از وقت پیدائش کے خطرے کی حامل ماوٴں کے لیے بنیادی حفاظتی اقدامات مثلاً اینٹی نیٹل اسٹیرائڈ انجیکشنز؛ ’کینگرو کیئر‘ جس میں نوزائیدہ کو گرماہٹ فراہم کرنے اور دودھ پلانے میں آسانی کے لیے سینے سے لگا کر رکھا جاتا ہے؛ آنول نال کے انفیکشن سے بچاوٴ کے لیے اینٹی سیپٹک کریم کا استعمال؛ انفیکشن سے بچاوٴ اور علاج کے لیے اینٹی بائیوٹک ادویات کا استعمال وغیرہ شامل ہیں۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے بڑے سرکاری ہسپتال پمز میں ماں اور بچے کی صحت کے شعبے کی انچارج ڈاکٹر سیدہ بتول مظہر کہتی ہیں کہ ملک میں بچوں کی زیادہ شرح پیدائش ہی قبل از ولادت کا سبب بنتی ہے۔ انھوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ غربت کی وجہ سے حاملہ خواتین کی اکثریت فولاد، وٹامن ڈی اور کیلشیم سمیت دیگر ضروری معدنیات کی کمی کا شکار ہوتی ہیں جس سے نہ صرف بچے وقت سے پہلے پیدا ہو جاتے ہیں بلکہ ان کا وزن بھی کم ہوتا ہے۔
’’غربت بہت زیادہ ہے تعلیم بہت کم ہے اور خواتین صحت کے مراکز پہنچ نہیں پاتیں ہیں اس کے علاوہ بچے بہت جلدی جلدی کم وقفے سے پیدا ہوتے ہیں ان تمام وجوہات کی بنا پر قبل از وقت بچے پیدا ہو رہے ہیں۔‘‘
پاکستان میں دوران حمل خواتین میں اموات کی شرح خطے کے دوسروں ملکوں کے لحاظ سے زیادہ ہے اور ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ حاملہ خواتین میں 260 خواتین زچگی کے دوران ہونے والی پیچدگیوں کے باعث مر جاتی ہیں۔
ڈاکٹر بتول کا کہنا ہے کہ صحت مند خاتون ہی ایک صحت مند بچے کو جنم دی سکتی ہیں جو کہ معاشرتی رویوں میں تبدیلی کے بغیر ناممکن ہے۔’’لڑکیوں کی تعلیم صحیح ہو ان کی شادی وقت پر ہو بچوں میں مناسب وقفہ ہو اور ڈلیوری تربیت یافتہ طبی عملے کے ہاتھ سے ہو۔ پورا معاشرہ ٹھیک ہوتا ہے تو ماں اور بچہ صحت مند ہوتے ہیں۔‘‘
عالمی ادارہ صحت کے مطابق حمل کے 37 ہفتے مکمل ہونے سے پہلے پیدا ہونے والے بچوں کی پیدائش قبل از وقت خیال کی جاتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں 100 نوزائیدہ بچوں میں سے تقریباً 16 بچے مختلف وجوہات کی بنا پر وقت سے پہلے پیدا ہو جاتے ہیں جو کہ نوزائیدہ بچوں کی اموات کی ایک بڑا وجہ ہے۔